Sad Poetry in Urdu
Sad Poetry
" مجھے معاف کر میرے ہمسفر
نہیں ظلم اتنا کرینگے ہَم
تجھے درد ہے میری بات کا
نہیں بات تم سے کرینگے ہَم
جس کو آپ کے چپ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اس کو آپ کے مر جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا
یہ میری آخری وصیت ہے
اسے میرا منہ نہ دکھایا جائے
پرندے بین کرتے ہیں جو زہریلی ہواؤں میں
وہ جگنو مار ڈالے ہیں جو اڑتے تھے فضاؤں میں
نشیمن توڑ کر آدم نے کچھ معصوم جانوں کا
چمن اپنا بنایا ہے سسکتی کچھ صداؤں میں
درندوں نے درندوں کو دیا جھٹکا جو وحشت کا
نظر آئے مقید وہ جو رہتے تھے گھپاؤں میں
مری کوئل مری قمری کہاں ہے فاختہ میری
کہاں ہیں رنگ موسم کے جو پھرتے تھے صباؤں میں
کہاں ہیں علم کے طالب کہاں ہیں دین کے عالم
یہ بونے کون ہیں اٹھ کر جو بیٹھے ہیں عباؤں میں
کہاں ہیں گیت نصرت کے کہاں ہیں راگ مہدی
کے وہ نغمہ گر کہاں بھٹکے جو رہتے تھے دعاؤں میں
جنہیں اشرافیہ کہتے ہو وہ تو سچ میں اشرف ہیں
جو غلطاں ہیں نمائش میں جو رہتے ہیں اناؤں میں
جو آتا ہے وہ کھاتا ہے کوئی کھا کر لگاتا ہے
گھرا ہے ملک میرا تو عجب وحشی بلاؤں میں
فکر غالب کی ترا عشق ہے مومن جیسا
داغ کا چرچا بھی دن رات بہت کرتے ہو
درد کے درد کی شدت سے نا مر جائے تُو
میر کا غم بھی لیے دل میں عجب پھر تے ہو
روگ تجھ کو بھی کوئی لگتا ہے آتش جیسا
کیسے شعروں میں بتا سوز جہاں بھرتے ہو
جرات و انشا بھی شامل ہیں تری شوخی میں
رنگ ناصر کا بھی لفظوں پہ بہت رکھتے ہو
تُو نے اقبال کو پرکھا ہے خودی میں اپنی
تم وہ شاہین ہو جو خود سے سدا لڑتے ہو
آج سارے لاڈ پورے کیے میں نے
اُس کا بیٹا ملا تھا سکول جاتے ہوئے
اوڑھ کر شال تری یادوں کی گھر جاتا ہوں
گھر نا جاؤں تو سرِ راہ بکھر جاتا ہوں
سرد موسم کے تھپیڑوں سے جو نخلِ گل پر
چوٹ پڑتی ہے تو کچھ اور سنور جاتا ہوں
حسن والوں کا تو دیتا ہوں ہمیشہ پہرہ
وادیِ عشق میں بےلوث اتر جاتا ہوں
مرنے والوں کو جلانے میں مزہ آتا ہے
جینے والوں پہ تو میں روز ہی مر جاتا ہوں
سوچ کو آگ دکھاتا ہوں ترے چہرے کی
آگ کو دل میں لگا کر میں نکھر جاتا ہوں
دن کو کہتا ہوں نہیں یاد نہیں کرنا اسے
شام کو اپنے ہی وعدے سے مکر جاتا ہوں
نظروں سے گِر گیا تو اُٹھایا نہیں گیا
مجھ سے وہ روٹھا شخص منایا نہیں گیا
اشکوں کو جس نے آنکھ کا زیور بنا دیا
آنکھوں کی چلمنوں سے ہٹایا نہیں گیا
ٹوٹا جو ایک بار تو حسرت ہوئی تمام
مجھ سے دوبارہ دل بھی لگایا نہیں گیا
مجھ کو مٹانے والے نے سب کچھ مٹا دیا
مجھ سےتو اس کا نام مِٹایا نہیں گیا
خوشیوں نے میری سوچ کو دیمک زدہ کیا
خوشیوں بھرا جو گھر تھا بسایا نہیں گیا
اس نے مجھے ہرانے کا جب عہد کر لیا
ہارا وہ شخص مجھ سے ہرایا نہیں گیا
دنیا میں جاکے میری عبادت کرو گے تم
ایسا تو ہم کو کچھ بھی سکھایا نہیں گیا
اس کی تمام باتوں کو مقدس دیا قرار
مجھ سے تو راز اپنا چھپایا نہیں گیا
تمہیں کیا پتہ مری سوچ کا مرے عشق کا مرے پیر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی لیلیٰ، مجنوں یا ہیر کا
تمہیں کیا پتہ مرے زخم کا مرے دردِ دل کا یا ہجر کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی جوگی، سنت، فقیر کا
تمہیں کیا پتہ مری رات کا مرے صبح و شام کے روگ کا
جو تُو جان لے تو نا نام لے کسی آنسو، اشک یا نیر کا
تمہیں کیا پتہ مری جان کا مری زندگی کے جہان کا
جو تو جان لے تو نا نام لے کسی غنچہِ دل چیر کا
تمہیں کیا پتہ مری فکر کا مری فہمِ سخنِ کلام کا
جو تو جان لے تو نا نام لے کسی درد، نظیر یا میر کا
برسوں گزر گئے رو کر نہیں دیکھا
آنکھوں میں نیند تھی سو کر نہیں دیکھا
وہ کیا جانے درد محبت کا
جس نے کبھی کسی کا ہوکر نہیں دیکھا
آسان کچھ نہیں ہے نظامِ حیات میں
جو بھی پسند ہو گی شے وہ آپ کی نہیں
میرے ہمسفر کا یہ حکم تھا کے کلام اس سے میں کم کروں ۔۔۔
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پھر میری چپ نے اسے رلا دیا
وہ مِلا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب کوئی گِلہ نہ تھا
اُسے میری چُپ نے رُلا دِیا جسے گفتگو میں کمال تھا
سما گئے تھے ہم اس طرح ایک دوجے میں
وہ اپنے نام سے مجھے كو بلایا کرتا تھا
_مخلص وہ نہیں جو منہ پہ آپکا ہو
مخلص وہ ہے جو پیٹھ پیچھے بھی آپکا ہی ہو
دلاسہ دیتے ہوے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
بہت پختہ مزاج ہے وہ شخص
یاد رکھتا ہے کہ اسے یاد نہیں کرنا
بدلا بدلا سا مزاج ہے کیا بات ہو گئی
شکایت ہم سے ہے یا ملاقات کسی اور سے ہو گئی
منافقوں کی بستی میں اپنے ڈیرے ہیں
میرے منہ پہ میرے ہیں تیرے منہ پہ تیرے ہیں
ایک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو
ایسا لگتا ہے میرا نام نہیں ہے کوئی
بس اسی بات پہ اکتائی ہوئی پھرتی ہوں
تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی
جب میں نے اسے کسی اور کے ساتھ دیکھا
پھر پتہ چلا خدا شرک کیوں نہیں معاف کرتا
کون کرتا ہے حفاظت پر ائی چیزوں کی
کون رکھے گا تمہارا خیال میری طرح
تم ہمیں ان دنوں میں کیوں نہ ملے
جب ہمیں شوق تھے سجنے سنورنے کے
ہم نے جینے کی عمر میں
پال رکھے ہیں شوق مرنے کے
یو وہ ہم کو دعا دیتے رہے
ساتھ میں ائین پہ نقطہ لگا کر
ہے عجب مزاج کا شخص وہ
کبھی ہم نفس کبھی ہم نشیں
کبھی چاند اس نے کہا مجھے
کبھی اسماں سے گرا دیا
وہ ہمیں بھول گیا تو عجب کیا ہےفراز,
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
عشق جس کو طلاق دے ڈالے
اس کی ساری حیات عدت ہے
اذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر وہ
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری انکھوں کو کیا ہوا ہے
میں نے تمام برے لمحات اکیلے دیکھے
میں کسی بھی شخص کا شکر گزار نہیں ہوں
صورتحال یہ ہے کہ زندگی سے بیزار ہوں
مسئلہ یہ ہے کہ دن بھی جوانی کے
ہائے جنت سے نکالے ہوئے ادم تم کو
میں بھی اب دل سے نکالوں تو کہاں جاؤ گے
وہ ایک شخص جو مجھے طعنہ جاں دیتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے
اور تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھے قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہان دیتا ہے
فاتحہ پڑھ لیجئے
محبت دفنا دی ہم نے
نانا اب قسم میں نہ اٹھائیں صاحب
ہم نے قران پہ ہاتھ رکھ کے چھوڑ جانے والے لوگ دیکھیں
میں وہ گوہر کے طلب جس کی رہی شاہوں کو
ہائے بدبخت مجھ کو پا کر گوانے والے
دست دعا کو کاسہ ساحل سمجھتے ہو
دوست ہو تو کیوں نہیں مشکل سمجھتے ہو
اور سینے پہ ہاتھ رکھ کر بتاؤ مجھے کہ تم
جو کچھ دھڑک رہا ہے اسے دل سمجھتے ہو
تیرا ہنستا ہوا چہرہ اداس کیوں ہے
برستی انکھوں میں پیاس کیوں ہے
اور جس کی نظر میں تم کچھ بھی نہیں وہ
تیری نظروں میں اتنا خاص کیوں ہے
میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ محبت کی ہے
ہو کہ محتاط وہ بولے کہ ارے حضرت کی ہے
اتنے سادہ ہیں کہ سن کے مجھے پیار اتا ہے
گھر بدلنے کو بھی کہتے ہیں کہ ہجرت کی ہے
نیند اتی ہے مجھے رات مشکل سے
پھر کوئی خواب میری انکھوں میں ا لگتا ہے
کب تلک لوٹ کر اؤ گے بچھڑنے والے
خالی رستے میں کھڑا شخص برا لگتا ہے
شاعری اس کے لب پہ جاتی ہے
جس کی انکھوں میں عشق روتا ہو