Attitude Poetry John Elia Poetry Sad Urdu Ghazal

Sad Ghazal - Urdu Ghazal

Welcome to Urdu Attitude Poetry! Here you can read and copy all types of Urdu poetry. In terms of lines, you can read two lines, four lines and Urdu Ghazal here. Apart from this, you can also read poetry by poets.
Poet

Sad Ghazal

Sad poetry is reflective form of expression that delves into the emotions of sorrow, grief, and melancholy. In simple terms, this type of poetry often communicates the feelings of sadness, heartbreak, and the struggles that accompany difficult moments in life. It may explore themes of loss, separation, or the challenges of facing personal hardships.

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
--------------------------------

Added By: Malik Uswa

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
-------------------------------

Added By: Malik Uswa

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
==========================

Added By: Malik Uswa

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
===================

Added By: Malik Uswa

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
==========================

Added By: Malik Uswa

بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
شوق کی اک اُمیدواری ہے
ورنہ کس کو خبر ہماری ہے
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
ین تمھارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے، آری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی اُمیدواری ہے
برہمن میرا وہ بہت نازک
سارے ہندوستاں پہ بھاری ہے
دل و دنیا میں وصل کیونکر ہو
اک ہزاری ہے اک بزاری ہے
نہیں مطلب کہن سنن تجھ سے
زندگی ہے تو بے قراری ہے

Added By: Malik Uswa

تیرے خواب بھی ہوں گنوار ہا ترے رنگ بھی ہیں بکھر رہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مر رہے
وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصت یک نفس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کر رہے
ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاط ہنر رہے
مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہر ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے
ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دم کو بھی کوئی تیغ ہو نہ سپر رہے
عجب ایک ہم نے ہنر کیا، وہ ہنر بطورِ دگر کیا
کہ سفر تھا دور و دراز کا سو ہم آکے خود میں ٹھہر رہے
یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو ادھر رہے نہ اُدھر رہے
ہے ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے

Added By: Malik Uswa

ز میں تو کچھ بھی نہیں آسماں تو کچھ بھی نہیں
اگر گمان نہ ہو درمیاں تو کچھ بھی نہیں
حریم جاں میں ہے اک داستاں سرا پر حال
خوش اُس کا حال مگر داستاں تو کچھ بھی نہیں
درونیان تسلی سے تو ملا ہے کبھی؟
عذاب حسرت بیرونیاں تو کچھ بھی نہیں
سہے ہیں میں نے عجب کرب سود مندی کے
گلہ ہے تجھ کو زیاں کا، زیاں تو کچھ بھی نہیں
کسے خبر سرِ منزل جو دل نے حال سہے
اذیت سفر رایگاں تو کچھ بھی نہیں
نہیں ہے مجھ سا زباں داں کوئی زمانے میں
جو میرا غم ہے وہ یہ ہے، زباں تو کچھ بھی نہیں
ہے جون قافله و راحلہ میں شور بپا
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہےوہاں تو کچھ بھی نہیں
حساب پیش و پس ذات کر رہا تھا میں
نہ جانے کس نے کہا درمیاں تو کچھ بھی نہیں

Added By: Malik Uswa

حیرت رنگ آئی تھی، دل کو لگا کے لے گئی
یاد تھی، اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی
خیمہ گر فراق سے خیمہ گہ وصال تک
ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے لے گئی
ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں
ایک مخٹک سی روشنی مجھ کو بجھا کے لے گئی
ایک شمیم پر خیال شہر خیال سے ہمیں
خواب دکھا کے لائی تھی خواب دکھا کے لےگئی دل کو بس اک تلاش تھی بے سرو کار دشت ودر
ایک مہک سی تھی کہ بس رنگ میں لاکے لے گئی
یاد، خراب و خسته یاد، بے سرو سازو نا مراد جانے قدم قدم کہاں مجھ کو چلا کے لے گئی
یار خزاں خزاں تھا میں، ایسی فضائے زرد میں نکہت یاد سبز نام مجھ کو خود آکے لے گئی
دشت زیان و سود میں بود میں اور نبود میں
مکمل ناز عشوہ گر مجھ کو بٹھا کے لے گئی
محفل رنگ طور میں خونِ جگر تھا چاہیے
وہ مری نوش کب مجھے زہر پلا کے لے گئی
سیل حقیقتوں کے تھے، دل تھا کہ میں کہاں ٹلوں
اور گماں کی ایک رو آئی اور آکے لے گئی
تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی
صر صر وقت لے گئی ان کو اڑا کے ناگہاں
اور نہ جانیے کہاں ان کو اڑا کے لے گئی
موج شمال سبز نام قریه درد سے مجھے
جادہ بہ جادہ، کو بہ کو، دُھوم مچا کے لے گئی
نغمه گران روز و شب کھا گئے مات العجب
یعنی نفس کی نغمگی زخم نوا کے لے گئی
گفت وشنو کا دم بھلا کس کو ملا جو پوچھتا
شوخ سی ایک شکل تھی بس وہ جگا کے لے گئی
جون پہ جس پری کا تھا اوّل شوق سے اثر
کل دل شب میں وہ پری اُس کو اُڑا کے لے گئی

Added By: Malik Uswa

لب ترے ہشت اور ترے پستان، ہشت ہشت جاناں جان جاناں جان، ہشت
تجھ سے بڑھ کر وہم ہے تیرا خدا ہشت
اے انسان اے انسان، هشت
ہشت اے حالِ گماں، سوز وجوب
اے گماں سامانی امکان پشت
بیچ میں کیا ہے؟ فقط شرم وجود
ران ازل کی اور ابد کی ران، ہشت
میں تمہیں خاطر میں لاتا ہی نہیں
ہشت اے دشوار، اے آسمان هشت

Added By: Malik Uswa

Page 1 of 5