Sad Ghazal - Urdu Ghazal
Sad Ghazal
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
--------------------------------
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
-------------------------------
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
==========================
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
===================
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
==========================
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
شوق کی اک اُمیدواری ہے
ورنہ کس کو خبر ہماری ہے
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
ین تمھارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے، آری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی اُمیدواری ہے
برہمن میرا وہ بہت نازک
سارے ہندوستاں پہ بھاری ہے
دل و دنیا میں وصل کیونکر ہو
اک ہزاری ہے اک بزاری ہے
نہیں مطلب کہن سنن تجھ سے
زندگی ہے تو بے قراری ہے
تیرے خواب بھی ہوں گنوار ہا ترے رنگ بھی ہیں بکھر رہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مر رہے
وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصت یک نفس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کر رہے
ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاط ہنر رہے
مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہر ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے
ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دم کو بھی کوئی تیغ ہو نہ سپر رہے
عجب ایک ہم نے ہنر کیا، وہ ہنر بطورِ دگر کیا
کہ سفر تھا دور و دراز کا سو ہم آکے خود میں ٹھہر رہے
یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو ادھر رہے نہ اُدھر رہے
ہے ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے
ز میں تو کچھ بھی نہیں آسماں تو کچھ بھی نہیں
اگر گمان نہ ہو درمیاں تو کچھ بھی نہیں
حریم جاں میں ہے اک داستاں سرا پر حال
خوش اُس کا حال مگر داستاں تو کچھ بھی نہیں
درونیان تسلی سے تو ملا ہے کبھی؟
عذاب حسرت بیرونیاں تو کچھ بھی نہیں
سہے ہیں میں نے عجب کرب سود مندی کے
گلہ ہے تجھ کو زیاں کا، زیاں تو کچھ بھی نہیں
کسے خبر سرِ منزل جو دل نے حال سہے
اذیت سفر رایگاں تو کچھ بھی نہیں
نہیں ہے مجھ سا زباں داں کوئی زمانے میں
جو میرا غم ہے وہ یہ ہے، زباں تو کچھ بھی نہیں
ہے جون قافله و راحلہ میں شور بپا
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہےوہاں تو کچھ بھی نہیں
حساب پیش و پس ذات کر رہا تھا میں
نہ جانے کس نے کہا درمیاں تو کچھ بھی نہیں
حیرت رنگ آئی تھی، دل کو لگا کے لے گئی
یاد تھی، اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی
خیمہ گر فراق سے خیمہ گہ وصال تک
ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے لے گئی
ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں
ایک مخٹک سی روشنی مجھ کو بجھا کے لے گئی
ایک شمیم پر خیال شہر خیال سے ہمیں
خواب دکھا کے لائی تھی خواب دکھا کے لےگئی دل کو بس اک تلاش تھی بے سرو کار دشت ودر
ایک مہک سی تھی کہ بس رنگ میں لاکے لے گئی
یاد، خراب و خسته یاد، بے سرو سازو نا مراد جانے قدم قدم کہاں مجھ کو چلا کے لے گئی
یار خزاں خزاں تھا میں، ایسی فضائے زرد میں نکہت یاد سبز نام مجھ کو خود آکے لے گئی
دشت زیان و سود میں بود میں اور نبود میں
مکمل ناز عشوہ گر مجھ کو بٹھا کے لے گئی
محفل رنگ طور میں خونِ جگر تھا چاہیے
وہ مری نوش کب مجھے زہر پلا کے لے گئی
سیل حقیقتوں کے تھے، دل تھا کہ میں کہاں ٹلوں
اور گماں کی ایک رو آئی اور آکے لے گئی
تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی
صر صر وقت لے گئی ان کو اڑا کے ناگہاں
اور نہ جانیے کہاں ان کو اڑا کے لے گئی
موج شمال سبز نام قریه درد سے مجھے
جادہ بہ جادہ، کو بہ کو، دُھوم مچا کے لے گئی
نغمه گران روز و شب کھا گئے مات العجب
یعنی نفس کی نغمگی زخم نوا کے لے گئی
گفت وشنو کا دم بھلا کس کو ملا جو پوچھتا
شوخ سی ایک شکل تھی بس وہ جگا کے لے گئی
جون پہ جس پری کا تھا اوّل شوق سے اثر
کل دل شب میں وہ پری اُس کو اُڑا کے لے گئی
لب ترے ہشت اور ترے پستان، ہشت ہشت جاناں جان جاناں جان، ہشت
تجھ سے بڑھ کر وہم ہے تیرا خدا ہشت
اے انسان اے انسان، هشت
ہشت اے حالِ گماں، سوز وجوب
اے گماں سامانی امکان پشت
بیچ میں کیا ہے؟ فقط شرم وجود
ران ازل کی اور ابد کی ران، ہشت
میں تمہیں خاطر میں لاتا ہی نہیں
ہشت اے دشوار، اے آسمان هشت