Ahmed Faraz Ghazal - Urdu Ghazal
Ahmed Faraz
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
--------------------------------
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
-------------------------------
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
==========================
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
===================
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
==========================
تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو.!
ہم سناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو.!
کون تھا دشمنِ جاں، وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر.!
ہاں وہی دشمنِ جاں دلبرِ جانی لوگو.!
زلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن.!
روپ سا روپ جوانی سی جوانی لوگو.!
سامنے اس کے دِکھے نرگسِ شہلا بیمار.!
روبرو اس کے بھرے سرو بھی پانی لوگو.!
اس کی گفتار میں خندہ تھا شگفتِ گل کا.!
اس کی رفتار میں چشمے کی روانی لوگو.!
اس کے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ.!
اس کی خوشبو سے جلے رات کی رانی لوگو.!
ہم جو پاگل تھے تو بے وجہ نہیں تھے پاگل.!
ایک دنیا تھی مگر اس کی دیوانی لوگو.!
ایک تو عشق کیا عشق بھی پھر میرؔ سا عشق.!
اس پہ غالؔب کی سی آشفتہ بیانی لوگو.!
ہم ہی سادہ تھے کیا اس پہ بھروسا کیا کیا.!
ہم ہی ناداں تھے کہ لوگوں کی نہ مانی لوگو.!
ہم تو اس کے لئے گھر بار بھی تج بیٹھے تھے.!
اس ستمگر نے مگر قدر نہ جانی لوگو.!
-----------------------------------------------------------------
تیری یادیں ہی سنانے ائے
دوست بھی دل ہی دکھانے ائے
پھول کھلتے ہیں تو ہم یہ سوچتے ہیں
تیرے انے کے زمانے ائے
ایسی کچھ چپ سی لگی ہے
جیسے ہم تجھے حال سنانے ائے
عشق تنہا ہے سر منزل غم
کون یہ بوجھ اٹھانے ائے
دل دھڑکتا ہے سفر کے ہنگام
کاش پھر کوئی بلانے ائے
اب تو رونے سے بھی دل دکھتا ہے
شاید اب ہوش ٹھکانے ائے
سو رہو موت کے پہلو میں فراز
نیند کس وقت ناجانے آے
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار اگئے
ہم خواب بیچنے سر بازار اگئے
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے میں میرے یار اگئے
اواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار اگئے
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے اؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
ازل سے کہہ دو کہ رک جائے دو گھڑی
سنا ہے انے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی
پلٹ کر نہ ا جائے پھر سانس نبضوں میں
اچھے حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئ
پھر اسی راہ گزر پر شاید
ہم کبھی مل سکے مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہم سفر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تیری نظر شان