Attitude Poetry John Elia Poetry Sad Urdu Ghazal

John Elia Ghazal - Urdu Ghazal

Welcome to Urdu Attitude Poetry! Here you can read and copy all types of Urdu poetry. In terms of lines, you can read two lines, four lines and Urdu Ghazal here. Apart from this, you can also read poetry by poets.
Poet

John Elia

John Elia was a famous poet and scholar from Pakistan. He was born on December 14, 1931, in Amroha, British India (now in Uttar Pradesh, India). His full name was Syed Hussain Sibt-e-Asghar Naqvi, but he is widely known by his pen name, John Elia.

بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
شوق کی اک اُمیدواری ہے
ورنہ کس کو خبر ہماری ہے
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
ین تمھارے کبھی نہیں آئی
کیا میری نیند بھی تمھاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے، آری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی اُمیدواری ہے
برہمن میرا وہ بہت نازک
سارے ہندوستاں پہ بھاری ہے
دل و دنیا میں وصل کیونکر ہو
اک ہزاری ہے اک بزاری ہے
نہیں مطلب کہن سنن تجھ سے
زندگی ہے تو بے قراری ہے

Added By: Malik Uswa

تیرے خواب بھی ہوں گنوار ہا ترے رنگ بھی ہیں بکھر رہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مر رہے
وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصت یک نفس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کر رہے
ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاط ہنر رہے
مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہر ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے
ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دم کو بھی کوئی تیغ ہو نہ سپر رہے
عجب ایک ہم نے ہنر کیا، وہ ہنر بطورِ دگر کیا
کہ سفر تھا دور و دراز کا سو ہم آکے خود میں ٹھہر رہے
یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو ادھر رہے نہ اُدھر رہے
ہے ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے

Added By: Malik Uswa

ز میں تو کچھ بھی نہیں آسماں تو کچھ بھی نہیں
اگر گمان نہ ہو درمیاں تو کچھ بھی نہیں
حریم جاں میں ہے اک داستاں سرا پر حال
خوش اُس کا حال مگر داستاں تو کچھ بھی نہیں
درونیان تسلی سے تو ملا ہے کبھی؟
عذاب حسرت بیرونیاں تو کچھ بھی نہیں
سہے ہیں میں نے عجب کرب سود مندی کے
گلہ ہے تجھ کو زیاں کا، زیاں تو کچھ بھی نہیں
کسے خبر سرِ منزل جو دل نے حال سہے
اذیت سفر رایگاں تو کچھ بھی نہیں
نہیں ہے مجھ سا زباں داں کوئی زمانے میں
جو میرا غم ہے وہ یہ ہے، زباں تو کچھ بھی نہیں
ہے جون قافله و راحلہ میں شور بپا
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہےوہاں تو کچھ بھی نہیں
حساب پیش و پس ذات کر رہا تھا میں
نہ جانے کس نے کہا درمیاں تو کچھ بھی نہیں

Added By: Malik Uswa

حیرت رنگ آئی تھی، دل کو لگا کے لے گئی
یاد تھی، اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی
خیمہ گر فراق سے خیمہ گہ وصال تک
ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے لے گئی
ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں
ایک مخٹک سی روشنی مجھ کو بجھا کے لے گئی
ایک شمیم پر خیال شہر خیال سے ہمیں
خواب دکھا کے لائی تھی خواب دکھا کے لےگئی دل کو بس اک تلاش تھی بے سرو کار دشت ودر
ایک مہک سی تھی کہ بس رنگ میں لاکے لے گئی
یاد، خراب و خسته یاد، بے سرو سازو نا مراد جانے قدم قدم کہاں مجھ کو چلا کے لے گئی
یار خزاں خزاں تھا میں، ایسی فضائے زرد میں نکہت یاد سبز نام مجھ کو خود آکے لے گئی
دشت زیان و سود میں بود میں اور نبود میں
مکمل ناز عشوہ گر مجھ کو بٹھا کے لے گئی
محفل رنگ طور میں خونِ جگر تھا چاہیے
وہ مری نوش کب مجھے زہر پلا کے لے گئی
سیل حقیقتوں کے تھے، دل تھا کہ میں کہاں ٹلوں
اور گماں کی ایک رو آئی اور آکے لے گئی
تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی
صر صر وقت لے گئی ان کو اڑا کے ناگہاں
اور نہ جانیے کہاں ان کو اڑا کے لے گئی
موج شمال سبز نام قریه درد سے مجھے
جادہ بہ جادہ، کو بہ کو، دُھوم مچا کے لے گئی
نغمه گران روز و شب کھا گئے مات العجب
یعنی نفس کی نغمگی زخم نوا کے لے گئی
گفت وشنو کا دم بھلا کس کو ملا جو پوچھتا
شوخ سی ایک شکل تھی بس وہ جگا کے لے گئی
جون پہ جس پری کا تھا اوّل شوق سے اثر
کل دل شب میں وہ پری اُس کو اُڑا کے لے گئی

Added By: Malik Uswa

لب ترے ہشت اور ترے پستان، ہشت ہشت جاناں جان جاناں جان، ہشت
تجھ سے بڑھ کر وہم ہے تیرا خدا ہشت
اے انسان اے انسان، هشت
ہشت اے حالِ گماں، سوز وجوب
اے گماں سامانی امکان پشت
بیچ میں کیا ہے؟ فقط شرم وجود
ران ازل کی اور ابد کی ران، ہشت
میں تمہیں خاطر میں لاتا ہی نہیں
ہشت اے دشوار، اے آسمان هشت

Added By: Malik Uswa

تو نے مستی وجود کی کیا کی
غم میں بھی تھی جو اک خوشی کیا کی
ناز بردار دل براں اے دل
تو نے خود اپنی دل بری کیا کی
آگیا مصلحت کی راہ پہ تو
اپنی از خود گذشتگی کیا کی
رہرو شام روشنی تو نے
اپنے آنگن کی چاندنی کیا کی
تیرا ہر کام اب حساب سے ہے
بے حسابی کی زندگی کیا۔ کی
یوں ہی پھرتا ہے تو جو راہوں میں
دل محلے کی وہ گلی کیا کی
اک نہ اک بات سب میں ہوتی ہے
وہ جو اک بات تجھ میں تھی ، کیا کی
جل اُٹھا دل، شمال شام مرا
تو نے بھی میری دل دہی کیا کی
نہیں معلوم ہو سکا دل نے
اپنی اُمید آخری کیا کی
جون دنیا کی چاکری کرکے
تو نے دل کی وہ نوکری کیا کی
اس کی محرم کی جو نشانی تھی
وقت تو نے وہ الگنی کیا کی
نہیں کوئی خوشی بدل جس کا
تو نے دل کی وہ نا خوشی کیا کی

Added By: Malik Uswa

وہ یقیں ہے نہ گماں ہے متنا ھو یا ھو
جان جانان جہاں ہے تنا ھو یا ھو
کون آشوبگر دیر و حرم ہے آخر
جو یہاں ہے نہ وہاں ہے تنا ھو یا ھو
کس نے دیکھا ہے مکاں اور زماں کو یارا!
نہ مکاں ہے نہ زماں ہے تنا ھو یا ھو
میں نے معنی میں نہ پائے کوئی معنی یعنی
لفظ ہی مالِ زباں ہے تننا ھو یا ھو
میں جو اک فاسق و فاجر ہوں جو زندیقی ہوں
رمز "حق" مجھ میں نہاں ہے تنا ھو یا ھو
حذر ارباب کلیسا کہ یہ معموره تو
سر دم اہرمناں ہے تننا ھو یا ھو
کیا بھلا سود و زیاں، سود و زیاں کیا معنی
کچھ نہ ارزاں، نہ گراں ہے متنا ھو یا ھو
زندگی کیا ہے میاں جان بھلا کیا کہیے
شاید اک اپنا سماں ہے تتنا ھو یا ھو
سینه وقت قیامت کا ہے چھلنی لیکن
نہ کمیں ہے نہ کہاں ہے تتنا ھو یا ھو
مفلساں ! دل سے خداوند تمھارے پہ دُرود
کیا ہی روزینہ رساں ہے تنا ھو یا ھو
یہ جو منعم ہیں انھیں کا تو ہے فتنہ سارا
اور دین ان کی دکاں ہے تتنا ھو یا ھو
شام فرقت کی ہے اور موج شمال سرسبز میرے سینے میں وزاں ہے تتنا ھو یا ھو
یار کا ناف پیالہ تو بلا ہے یاراں
حشر محشر طلباں ہے تنا هو يا هو
وہ مری جان مری جان شکم رقاصه
کیا ہی وجد آور جاں ہے نتنا هو يا هو
خون ہی تھوک رہا ہوں میں بچھڑ کے اُس سے
و ہی تو رنگ رساں ہے تنا ھو یا ھو
ڈھول اُڑتی ہے مری جان مرے سینے میں
دل مرا دشت فشاں ہے تنا ھو یا ھو
جون، میں جو ہوں کہاں ہوں، مجھے بتلا تو سہی
جون تو مجھ میں تپاں ہے تنا ھو یا ھو

Added By: Malik Uswa

طلسمی سرزمیں ہے ، جانے کیا ہو
یہاں کچھ بھی نہیں ہےجانے کیا ہو
عجب ہی کچھ ہے اس بستی کا انداز
کچھ اندازہ نہیں ہے، جانے کیا ہو
کبھی اک شور اُٹھتا تھا پر اب کے
خموشی نکتہ چیں ہے، جانے کیا ہو
گراں ہے اب یہاں جنسِ گماں بھی
وہ افلاس یقیں ہے، جانے کیا ہو
جدا ہیں اور نہیں تاب جدائی
ابھی تک دل وہیں ہے، جانے کیا ہو
ٹھہر ، اشک سر مژگانِ جاناں!
یہ میری آستیں ہے ، جانے کیا ہو
یہ ہنگام تلاطم تھا مگر دل
تلاطم تہ نشیں ہے ، جانے کیا ہو
ہیں کچھ قصے یہاں اس کے سوا بھی
اسے آنا یہیں ہے، جانے کیا ہو
کسی کے محرموں میں دل ہمارا
عبارت آفریں ہے ، جانے کیا ہو
چلے تو آئے ہو تم پر مری جاں
وہ در اب بے جبیں ہے، جانے کیا ہو
یونہی دل صبح سے اندو بگیں ہے
بہت اندونگیں ہے ، جانے کیا ہو

Added By: Malik Uswa

تو ہے جن کی جان اُنھیں کی تجھ کو نہیں پہچان سجن
تجھ پر میری جان نچھاوراے میرے انجان سجن
دھند ہے دیکھے سے ان دیکھے تک دیکھے ان دیکھے کی
اور اس دھند میں ہے اب میرے دھیان میں بس اک دھیان سجن
میری ذات اب اک زنداں ہے دل ہے اس کا زندانی
تو ہے میری ذات کے اس زندانی کا ارمان سجن
یہ جو ہم دو چار بچے ہیں ، نام ترا جینے والے
ہو سکتا ہے کچھ کر گزریں ،بات ہماری مان سجن
ایسے فسادی بھی ہوتے ہیں، سوچ کے بس حیران ہوں میں
بیچ میں پڑنے والے نکلے، کیسے بے ایمان سجن
چاہ کا ناتا کیسے مجھے گا، کیسے بات بنے گی جان
میں نے کیا کچھ ٹھان رکھا ہے، تو بھی تو کچھ ٹھان سجن
ویرانوں میں کوئی نہیں جو آنکلے اور دھوم مچے
ویرانوں کی ویرانی سے ، شہر ہوئے ویران سجن

Added By: Malik Uswa

اب تو اک خواب ہوا اذنِ بیاں کا موسم
جانے کب جائے گا یہ شور اذاں کا موسم
حاکم وقت ہوا ، حاکم فطرت شاید
ان دنوں شہر میں نافذ ہے خزاں کا موسم
حکم قاضی ہے کہ ماضی میں رکھا جائے ہمیں
موسم رفتہ رہے ، عمرِ رواں کا موسم
نم بادہ کا نہیں نام و نشاں اور یہاں
ہے شرر بار ، فقیہوں کی زباں کا موسم
کعبه دل پہ ہے پیران حرم کی یلغار
ہائے اے پیرِ مغاں ! تیری اماں کا موسم
بند ہیں دید کے در وا نہیں اُمید کے در
ہے یہ دل شہر میں، خوابوں کے زیاں کا موسم
وا نہ کر بندِ قبا یاں کی ہوا میں اپنے
بت سرمست ! مسلمان ہے یاں کا موسم
رنگ سرشار نہ ہو جائے فضا تو کہنا
آئے تو مستی خونیں نفساں کا موسم

Added By: Malik Uswa

Page 1 of 3