Parveen Shakir Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
Parveen Shakir
--بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
--وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
--وہ جس کی ایک پل کی بے رُخی بھی دل کو بار تھی
--- اُسے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔مجھ کو بھُول جا
--وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
--عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
--برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
--پھر کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
---وہ رُوح میں خُوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل
---جو دُور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
--ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
--آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
---کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے
--تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
---ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
--کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
-ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا۔
---کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا۔
--اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
--اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
--کاسۂ دِید میں ، بس ایک جَھلک کا سِکّہ
---
ھم فقیروں کی قناعت سے , تُجھے دیکھتے ھیں
---میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
---مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے
---یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
---شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
شرم آئے گی تمھیں ورنہ تمہارے وعدے
--میں یاد دلا سکتی ہوں ، مگر رہنے دو
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے......
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خاک سے ہے ...
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
---وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
--وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں
-اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
--میرے لفظوں سے نکل جائے اثر
-- کوئی خواہش جو تیرے بعد کروں
---اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
---کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
--وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
--بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
--اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
--کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
---اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
--کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
---بہار نے مِری آنکھوں پہ پھُول باندھ دیئے!
---رہائی پاؤں تو کیسے ، حصارِ رنگ میں ہوں
---ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
---اور یہ دل ھے کے اسے حد سے سوا چاہتا ھے
... اب کیا ڈھونڈ تے ہو جلے کاغذ کی راکھ میں
...وہ افسانہ ھی جل گیا جسکا عنوان تم تھے
==کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
==میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
--قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
--دستار کے ہوتے ہوۓ سر کاٹ رہا ہے
--میں لاکھ مُحترم ہوئی، مگر ڈھونڈتی رہی
--لذت، جو تیرے شہر کی رسوائیوں میں تھی
--حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
--بات سے پہلے جہاں بات کٹے
--پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
--ایسے میں آنکھ دھُوپ کے رُخ کیسے کھولیے
--ہنسی کو اپنی سُن کے ایک بار میں چونک اُٹھی
---یہ مجھ میں دُکھ چھپانے کا کمال کیسے آگیا
----وفا میں دھُوپ کا ساتھی کوئی نہیں
---سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
----بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا
----اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں
---اب تو ٹوٹی کشتی بھی آگ سے بچاتے ہیں
----ہاں کبھی تھا نام اپنا بخت آزماؤں میں
---شاخوں نے پھُول پہنے تھے کچھ دیر قبل ہی
----کیا ہو گیا ، قبائے شجر کیوں اُتر گئی
---کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں
---وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
---وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
---انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر کےلیکن
----وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے