Meer Taqi Meer Ghazal - Urdu Ghazal
Meer Taqi Meer
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا....
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا....
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے....
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا....
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں.....
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا........
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں....
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا....
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل...
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا....
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف....
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا.....
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر.....
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا.....
فقیرانہ آئے صدا کر چلے....
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چل....
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم....
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے....
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے...
یہ نمائش سراب کی سی ہے.....
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے.....
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے.....
چشم دل کھول اس بھی عالم پر.....
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے.....
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں.....
حالت اب اضطراب کی سی ہ
نقطۂ خال سے ترا ہے
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے.....
دل پر خوں کی اک گلابی سے.....
جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ.....
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا....
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا.....
اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا
جب سے اس بے وفا نے بال رکھے....
صید بندوں نے جال ڈال رکھے.....
ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ
یوں کوئی جی میں کچھ خیال رکھے
رہرو راہ خوفناک عشق
چاہیے پاؤں کو سنبھال رکھے
پہنچے ہر اک نہ درد کو میرے
وہ ہی جانے جو ایسا حال رکھے
ایسے زر دوست ہو تو خیر ہے اب
ملیے اس سے جو کوئی مال رکھے
بحث ہے ناقصوں سے کاش فلک
مجھ کو اس زمرے سے نکال رکھے
سمجھے انداز شعر کو میرے.....
میرؔ کا سا اگر کمال رکھے....
جس جگہ دور جام ہوتا ہے...
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے....
ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے
تیغ ناکاموں پہ نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے
پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز ان کا بھی شام ہوتا ہے
آخر آؤں گا نعش پر اب آہ
کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غم زدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی
رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے
گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہ گاروں میں تھے.....
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے.....
دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے.
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو......
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو....
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم.....
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو.......
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن......
اس قدر تو سواد ہے ہم کو.....
سادگی دیکھ عشق میں اس کے.....
خواہش جان شاد ہے ہم کو.....
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ.....
قصد شور و فساد ہے ہم کو....
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں....
اور سب سے عناد ہے ہم کو.....
نامرادانہ زیست کرتا تھا......
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو.....
ہے غزل میر یہ شفائیؔ کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ.....
کس بھروسے پر آشنائی کی......