Meer Taqi Meer Ghazal - Urdu Ghazal
Meer Taqi Meer
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے....
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے....
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا.....
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا
بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا
کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا
مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا
میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا.....
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ......
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں.....
پر تمامی عتاب ہیں دونوں.....
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک....
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں.....
ہے تکلف نقاب وے رخسار.....
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں.....
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے....
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں....
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ....
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں....
قصد گر امتحان ہے پیارے....
اب تلک نیم جان ہے پیارے....
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر....
یہ ہماری زبان ہے پیارے....
چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے پاس....
یہ ہمارا نشان ہے پیارے.....
میر عمدن بھی کوئی مرتا ہے.....
جان ہے تو جہان ہے پیارے.....
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں