Parveen Shakir Ghazal - Urdu Ghazal
Parveen Shakir
--مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے
--برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے
-کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
--چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
--محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے
--خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے
-بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
-پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے
--نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی
سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے
--قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی
پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی
--جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
--میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی
--وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں
فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی
--یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
-بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے
اس سمندر کا کنارہ اور ہے
موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے
ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
--متن میں تو جرم ثابت ہے مگر
حاشیہ سارے کا سارا اور ہے
--ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
آسماں کا ہی اشارہ اور ہے
--دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی
تیز بارش کا سہارا اور ہے
--ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
--سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے
فصل غم کا گوشوارہ اور ہے
--دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے
--اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے
--حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
,بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکست خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
,نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
,یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں
,ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سلے بھی نہیں
,خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں
--اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
--میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
--تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے
--ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے
--صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے
--اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے
---اس عمر کے بعد اس کو دیکھا
--آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
--ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
--چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
--لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
--آواز میں گونجتی جدائی
---بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
---سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
--تا دیر میں سوچتی رہی تھی
--کس ابر گریز پا کی خاطر
--میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
--کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
--میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
--وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو
--لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکر فصل گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہوگی
میں اپنے گھر میں اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں وہ منزل ہے چاہت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
===========================
--سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
--مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
--رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
--ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
---بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
--فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
--اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
--چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
--وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
--نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
--لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
--شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
--ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
--عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
---گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے
--کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
--زخم ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
--کس شہر نا سپاس میں پیدا کیا مجھے
--جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
--کیوں ذوق شعر دے کے تماشا کیا مجھے
--خوشبو ہے چاندنی ہے لب جو ہے اور میں
--کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
--دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے
--میں یوں سنبھل گئی کہ تری بے وفائی نے
--بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
---وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
--دنیا کے ہر فریب سے ملوا دیا مجھے
--اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
--بیتے دنوں کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیا مجھے
--کچھ خبر لائی تو ہے باد بہاری اس کی
--شاید اس راہ سے گزرے گی سواری اس کی
--میرا چہرہ ہے فقط اس کی نظر سے روشن
--اور باقی جو ہے مضمون نگاری اس کی
--آنکھ اٹھا کر جو روادار نہ تھا دیکھنے کا
--وہی دل کرتا ہے اب منت و زاری اس کی
--رات کی آنکھ میں ہیں ہلکے گلابی ڈورے
--نیند سے پلکیں ہوئی جاتی ہیں بھاری اس کی
--اس کے دربار میں حاضر ہوا یہ دل اور پھر
--دیکھنے والی تھی کچھ کارگزاری اس کی
--آج تو اس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا
-اس کے جاتے ہی نظر میں نے اتاری اس کی
--عرصۂ خواب میں رہنا ہے کہ لوٹ آنا ہے
--فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اس کی
==========================