Parveen Shakir Ghazal - Urdu Ghazal
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/parveen-shakir.png)
Parveen Shakir
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا کیا ہے جو اب نظم چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے صیاد سے بھی
کیوں سرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرار دل آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو مرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گہ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اجالوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گھومیں
میں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عمر بھر تھامے رہے خوش بو کو
پھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتوں میں سمٹ کر سوئے
پیڑ یوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے
---رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
---شب وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں
---مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
---کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں
---بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
--مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں
--ہزار صاحب رخش صبا مزاج آئے
--بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں
--وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہہ تلوار
--تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں
===========================
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اُڑان سے پہلے
یہ خوف ہجر ہے، شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزا تو جب ہے کہ تم جان بوجھ کر ہارو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی اُبھار سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
=≠==============≠==========
--
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
--
ہماری زندگی برباد کر کے
---
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
---
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
--
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
--
مگر ہاں منت صیاد کر کے
--
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
--
گیا ہے روح کو آباد کر کے
--
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
---
مقرر ظلم کی میعاد کر کے
===========================
---بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
---موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
---بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
---کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
--جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
---بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
__لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
__سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
--بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
---دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
---سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں
---زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے
----جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
---لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
===========================
یہ کب کہتی ہوں تم میرے گلے کا ہار ہوجاؤ۔۔
وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بےزار ہوجاؤ۔۔
ملاقاتوں میں وقفہ اس لئے ہونا ضروری ہے،
کہ تم اک دن جدائی کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔
بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو،
بہت آسان ہو تھوڑے بہت دشوار ہوجاؤ۔۔
بلا کی دھوپ سے آئی ہوں میرا حال تو دیکھو،
بس اب ایسا کرو تم سایۂ دیوار ہوجاؤ۔۔
ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھ بھی لینا حالِ دل اپنا
مگر لکھنا تبھی جب لائقِ اظہار ہوجاؤ
===========================
وقت رخصت آ گیا___ دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے
اور اس صحرا میں___ تیرا دور تک سایہ نہیں
میری قسمت میں فقط درد تہہ ساغر ہی ہے
اول شب جام____میری سمت وہ لایا نہیں
تیری آنکھوں کا بھی کچھ ہلکا گلابی رنگ تھا
ذہن نے میرے بھی اب کے دل کو سمجھایا نہیں
کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی
اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں
===========================
دَروازہ جو کھولا تَو نَظَر آئے کَھڑے وہ
حَیرَت ہے مُجھے آج کِدھر بُھول پَڑے وہ
بُھولا نہیں دِل ہِجر کے لَمحات کَڑے وہ
راتیں تو بَڑی تھِیں ہی مَگر دِن بھی بَڑے وہ
کیوں جان پہ بَن آئی ہے بِگڑا ہے اَگر وہ
اُس کی تَو یہ عادَت کہ ہَواؤں سے لَڑے وہ
اَلفاظ تھے اُس کے کہ بہاروں کے پَیامات
خوشبُو سی بَرسنے لَگی یُوں پُھول جَھڑے وہ
ہر شخص مُجھے تُجھ سے جُدا کَرنے کا خواہاں
سُن پائے اَگر ایک تَو دَس جا کے جَڑے وہ
بَچّے کی طَرَح چاند کو چُھونے کی تَمَنّا
دِل تَو کوئی شَہ دے دے تَو کَیا کَیا نہ اُڑے وہ
طُوفاں ہے تو کَیا غَم مُجھے آواز تَو دِیجے
کیا بُھول گئے آپ مِرے کَچَّے گَھڑے وہ
===≠=====≠=======≠======≠==
کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی
ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر
کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی
زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر
تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم بھی
ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دُھن میں
کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی
===========================