Meer Taqi Meer Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
Meer Taqi Meer
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
----------------------
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
===================
بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
=======================
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
---------------------------
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے
-------------------------
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
----------------------
گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم....
کہتے ہیں اسے شافی و کافی و حکیم......
وہ غیر کرم بندے کے حق میں نہ کرے.....
یہ بابت مکرمت ہے اللہ کریم.....
جب وہ ہنستا ہے تو مستانہ کنول لگتا ہے.....
میر کا شعر یا غالب کی غزل لگتا ہے.....
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا....
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ....
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا....
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا.....
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا.....
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے....
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک می..
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا....
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی....
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو.....
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا....
بہت کچھ کہا ہے کرو میرؔ بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس....
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے.....
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں.....
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو مے خانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے....
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب ....
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا....
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں....
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے ....
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے....
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم ....
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے....
چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں مانیں کیوں کر بے آثار ...
اشک کی سرخی منہ کی زردی عشق کی کچھ تو علامت ہو
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا...
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے ....
درد بے اختیار اٹھتا ہے....
دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہو گیا......
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا...
دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا...
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ....
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر...
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ.....
زندگی کچھ اور شے ہے،علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے ،علم ہے سوز دماغ....
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر....
مصر و حجاز سے گزر،پارس و شام سے گزر....
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود...
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائں یہو...
متاع بے بہا ہے سوزودرد و آرزو مند.....
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی.....