Meer Taqi Meer Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
Meer Taqi Meer
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے ....
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر....
نو نومبر کو قدم رکھا تھا ارضپاک پر...
نام تھا اقبال شھرت چھا گی افلاک پر
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی.....
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی..
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ ...
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا....
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں ...
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا...
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا....
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا....
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے....
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا......
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو ...
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات...
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے .....
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے....
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے ...
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک می..
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن .....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت ...
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر....
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن ....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی.....
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کےتئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا....
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب ....
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں....
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں.....
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس ....
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے....
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ ازار جائے گا
ہستی اپنے حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
شکوہ ابلہ ابھی سے میر
ہے پیارے ہنوز دلی دور
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس ارام طلب کو
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
آگ تھے ابتدا عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے
یوں اٹھے اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
قصد کر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
عشق انکھوں میں کم نہیں اتا
لو ہو اتا ہے جب نہیں اتا
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جما تو دیوان کیا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
گل ہو مہتاب ہو ائینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا