Meer Taqi Meer Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/meer-taqi-meer.png)
Meer Taqi Meer
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے
دکھ تو دل کے جان سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
جبکہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
وہ شوخ دشمن جاں اے دل تو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظلم ایسی بلا کی خواہش
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
وہ ائے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
کیا جانیے اے گوہر مقصد تو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن تو نہ ملا
بلبل غزل سرائی اگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
اہ کے تیں دل خیران و خفا کو سونپا
میں نے یہ غنچہء تصویر صبا کو سونپا
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نیمو اس کا خوب لال کیا
کاسہ چشم لے کے جوں نرگھس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
یہ جو مہلت جسے کہے ہیں
عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دم کے جانے کا نہایت ہی غم رہا
وہ جو شامل تھا میری دعاؤں میں
بن مانگے کسی اور کو مل گیا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
یو پکارے ہیں مجھے کوچےءجاناں والے
ادھر آبے ابے او چاک گریباں والے
مجھے کام رونے سے اکثر ہے نا صح
تو کب تک میرے منہ کو دھوتا رہے گا
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
پیمانہ کہے ہے کوئی میخانہ کہے ہے
دنیا تیری انکھوں کو بھی کیا کیا نہ کہے ہے
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
اگے اگے دیکھ ہوتا ہے کیا
میر ان کی نیم باز انکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو با وفا ہوتا
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر صاحب تم فرشتہ ہو تو ہو
ادمی ہونا تو مشکل ہے میاں
ہمارے اگے تیرا جب کسونےنام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام, تھام لیا
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختیاری کی
چاہتے ہیں سو اپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
دلی میں آج بیھک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
شرت سلیقہ ہے ہر ایک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
لے سانس بھی اہستہ کے نازک ہے میرے کام
افاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
جن جن کو تھا یہ عشق کا ازار مر گے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
ہم نے سنا تھا کہ دوست وفا کرتے ہیں
جب ہم نے کیا بھروسہ تو روایت بدل گئی