Sad Ghazal - Urdu Ghazal
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/sad-poetry.png)
Sad Ghazal
طور یہ پسند آئے دل کو شہر والوں کے
جیب میں لیے پھر یے مرحلے خیالوں کے
کیسے کیسے جھگڑے ہیں، اس شکستہ حالی میں
ہم شکستہ حالوں سے، ہم شکستہ حالوں کے
وار کرنے والو! آؤ ، آکے مرہمی فرماؤ
ہم نے زخم کھائے ہیں، جانے کتنی ڈھالوں کے
پائمال کرتے ہیں نقش پا پا ہمیں کیا کیا
اپنی پائمالی میں اپنے پائمالوں کے
دل پہ خوش جوابی کے جانے کیا گزرتی ہو
ایک جنبش لب میں عیش ہیں سوالوں کے
بے گلہ گزرتی ہے ، ہم گلہ گزاروں کی بے
وطن دعا گو ہیں، بے ختن غزالوں کے
شوق بے مثالی میں ہے یہ روزگار اپنا
ہیں زباں کا روزینہ نام بے مثالوں کے
جانے کن اندھیروں میں تم نے چھاؤنی کی
ہے! تم اُجڑنے والے تو ، خواب تھے اُجالوں کے
دل کی ہر بات دھیان میں گزری
ساری ہستی گمان میں گزری
ازل داستاں سے اس دم تک
جو بھی گزری، اک آن میں گزری
جسم مدت تری عقوبت کی
ایک اک لمحہ جان میں گزری
زندگی کا تھا اپنا عیش مگر
سب کی سب امتحان میں گزری
ہائے! وہ ناوک گزارش رنگ
جس کی جنبش کمان میں گزری
وہ گدائی گلی عجب تھی کہ واں
اپنی اک آن بان میں گزری
یوں تو ہم دم بہ دم زمیں پہ رہے
عمر سب آسمان میں گزری
جو تھی دل طائروں کی مہلت بود
تا زمیں ، وہ اُڑان میں گزری
بود تو اک تکان ہے ، سو خدا!
تیری بھی کیا تکان میں گزری
بے سبب تو نہ تھیں تری یادیں
تیری یادوں سے کیا نہیں سیکھا
ضبط کا حوصلہ بڑھا لینا
آنسوئوں کو کہیں چُھپا لینا
کانپتی ڈولتی صدائوں کو
چُپ کی چادر سے ڈھانپ کر رکھنا
بے سبب بھی کبھی کبھی ہنسنا
جب بھی ہو بات کوئی تلخی کی
موضوعِ گفتگو بدل دینا
بے سبب تو نہیں تری یادیں
تیری یادوں سے کیا نہیں سیکھا
===========================
شوق نال وجاء کے ونجھلی نوں پنجاں پیراں اگے کھڑا گاؤندا اے
کدی اودھوتے کاہن دے بِشن پدے کدے ماجھ پہاڑی دِی لاؤندا اے
کدی ڈھول تے مارون چھوہ دیندا کدی بوبنا چاء سُناؤندا اے
ملکی نال جلالی نوں خوب گاوے وِچ جھیوری دِی کلی لاؤندا اے
کدی سوہنی تے مہینوال والے نال شوق دِے سد سناؤندااے
کدی دھرپداں نال کَبِت چھوہے کدی سوہلے نال رلاؤندا اے
سارنگ نال تلنگ شہانیاں دے راگ سوہے دا بھوگ چاء پاؤندا اے
سورٹھ گجریاں پوربی للت بھیروں دِیپک راگ دی زیل وجاؤندا اے
ٹوڈی میگھ ملہار تے گونڈ دھنا سری جیت سری بھی نال رلاؤندا اے
مال سِری تے پرج بیہاگ بولے نال ماروا وِچ وجاؤندا اے
کیدا را تے بھاگڑا راگ مارو نالے کاہنڑے دے سُر لاؤندا اے
کلیان دے نال مالکنس بولے اتے منگلا چا ر سُناوندا اے
بھیرو ں نال پلاسیاں بھیم بولے نٹ راگ دی زِیل وجاؤندا اے
بَروا نال پہاڑ جھنجھوٹیاں دے ہوری نال آسا کھڑا گاؤندا اے
بولے راگ بسنت ہنڈول گوپی منداونی دیاں سُراں لاؤندائے
پلاسی نال ترانیاں ٹھانس کے تے وارث شاہ نوں کھڑا سناوندا اے
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے تھوڑا چھوٹا میں بھی ٹھہرا ، تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
جنگ آنا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا، بکھرا بکھرا تو بھی ہے
جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما سہم تو بھی ہے
اک مدت سے اصل قائم صرف ہمارے ہی رہی کیوں سے ملتا رہتا ہوں میں، سب سے ملتا تو بھی ہے
اپنے اپنے دل کے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ہم دونوں گر تم کم کم میں بھی بہت ہوں کھویا کھویا تو بھی ہے
ہم دونوں تجدید رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا تنہا تنہا میں ہی نہیں ہوں، تنہا تنہا تو بھی ہے
حد سے فراغ آگے جانے کے دونوں آنا کی راہوں پر کچھ شرمندہ لیکن میں ہوں، کچھ شرمندہ تو بھی ہے
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو ، اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر ،بَھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں…
کبھی تنہائی کا احساسِ مسلسل بھی ہے
کبھی شب و روز کی آزمائشِ مسلسل بھی ہے
کبھی بے تحاشہ خوشیاں بھی ہیں
کبھی اذیتوں کی شبِ مسلسل بھی ہے
کبھی ساتھ میسر ہے سبھی کا مجھے
کبھی اکیلے پن کا دورِ مسلسل بھی ہے
کبھی تو ہجوم میں بھی تنہا ہوں
کبھی خود سنگ محفلِ مسلسل بھی ہے
کبھی قہقہے ہیں یاروں کے سنگ.......
کبھی دیر تلک خامشیِ مسلسل بھی ہے......
کبھی منزلوں کو پا لینے کی خوشی ملی.....
کبھی شہرِ ذات کا سفرِ مسلسل بھی ہے.....
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ....
جن کی نیند پوری نہیں ہوتی...
اُن کا دماغ آہستہ آہستہ خود کو
دیمک کے جیسے چاٹ کر ختم کرنے
لگ جاتا ہے.. مجھے برسوں گزر گئے ہیں
میں ٹھیک سے سوئی نہیں ہوں
پھر کیوں میرا دماغ دیمک زدہ نہیں ہورہا
کیوں مجھے کچھ بھی بھولتا نہیں ہے
کیوں ہر وقت میرے سامنے .......
میرا گزرا کل رہتا ہے...
کیوں مجھے اس اذیت سے چھٹکارا .....
نہیں مل رہا کیوں مجھے وہ چیخ ....
ہمیشہ سُنائی دیتی ہے ...
جو میری روح تک کو افسردہ کر دیتی ہے .....
کبھی تو میرا دماغ دیمک زدہ ہو گا.....
بس یہی سوچ کر میں...
برسوں سے جاگ رہی ہوں...
تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعتا چھوڑ کے جا سکتے ہو
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم سے باتوں میں کچھ اس درجہ مگن ہوتا ہوں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
جانے والے سے سوالات نہیں ہوتے میاں
تم یہاں اپنا بدن چھوڑ کے جا سکتے ہو
جانا چاہو تو کسی وقت بھی خود سے باہر
اپنے اندر کی گھٹن چھوڑ کے جا سکتے ہو
شکوہ
بڑی گستاخ ہے تیری یاد اسے تمیز سکہا دو...
دستک بہی نہیں دیتی اور دل میں اتر آتی ہے...
جواب شکوہ
ارے کیوں لگاتے ہو میری یاد پہ الزام.
اپنا ہی گہر ہو تو کون پوچھ کے آتا ہے