Sad Poetry in Urdu
Sad Poetry
بند باہر سے مری ذات کا در ہے مجھ میں
میں نہیں خود میں، یہ اک عام خبر ہے مجھ میں
اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال جون، برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ہُوَس کا مجھ میں اک دوزخ تھا لیکن
شب اوّل میں بالکل سرد نکلا
سُبُھلایا اُس نے کس کس کو نہ جانے
میاں، یہ دل بڑا بے درد نکلا
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار میرے لیے تو مر گئے
شوق کا رنگ بجھ گیا، یاد کے زخم بھر گئے کیا مری فصل ہو چکی، کیا مرے دن گزر گئے
ره گذر خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ وقت کی گرد باد میں جانے کہاں بکھر گئے
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے
پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے
بہت نزدیک آتی جارہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
کمی کو اپنی اپنے آپ ہی میں
زیادہ سے زیادہ کر لیا کیا
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کرلیا کیا
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کرلی
تو خود اپنے کو آدھا کرلیا کیا
تیرے خواب بھی ہوں گنوار ہا ترے رنگ بھی ہیں بکھر رہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مر رہے
وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصت یک نفس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کر رہے
محبت کے بعد محبت ممکن ہے فرازؔ
پرٹوٹ کے چاہناصرف ایک بارہوتاہے۔
------------
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھاہے فرازؔ
رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیس
-------------------------------
وہ روز دیکھتاہے ڈوبتے ہوئے سورج کوفرازؔ
کاش میں بھی کسی شام کا منظرہوتا۔
------------------------------
چراغ جلاناتوپُرانی رسمیں ہیں فرازؔ
اب تو تیرے شہر کے لوگ انسان جلادیتے ہیں
--------------------------------
کون کس کے ساتھ مخلص ہے فرازؔ
وقت ہر شخص کی اوقات بتادیتاہے
--------------------------
تمام عمر اسی کے خیال میں گزری فرازؔ
میراخیال جسے عمر بھر نہیں آیا
___________________________
رات ہوتے ہی اک پنچھی روز مجھے کہتا ہے فرازؔ
دیکھ میرا آشیانہ بھی خالی تیرے دل کی طرح
-------------------------------
خالی ہاتھوں کو کبھی غور سے دیکھاہے فرازؔ
کِس طرح لوگ لکیروں سے نکل جاتے ہیں
_______________________________
ہزار بار مرنا چاہانگاہوں میں ڈوب کرہم نے
فرازؔ
وہ نگائیں جھکالیتی ہے ہمیں مرنے نہیں دیتی
کچھ محبت کانشہ پہلے ہم کو تھافرازؔ
دل جو ٹوٹاتو نشے سے محبت ہوگئی۔
-------------------------
میں شب کا بھی مجرم ہوں سحر کا بھی ہوں مجرم
یارو مجھے اس شہر کے آداب سکھادو
-------------------------
خالی ہاتھوں کو کبھی غور سے دیکھاہے فرازؔ
کِس طرح لوگ لکیروں سے نکل جاتے ہیں
--------------------------------
میں فنا ہوگیا وہ بدلا پھر بھی نہیں فرازؔ
میری چاہت سے بھی سچی تھی نفرت اس کی
---------------------------------
تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ تیرے دوستوں میں ہوں
-------------------------------
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر سے رستے بنالیے
---------------------------
افسوس کوئی پوچھتا نہیں دل کاحال فرازؔ
ہر کوئی کہہ رہا ہے تیرے رنگ کوکیاہوگیا
-----------------------------
اَب کیوں روشنی سے ڈرتے ہوفرازؔ
تم توکہتے تھے مجھے چاند چاہیئے
--------------------------
یہی دل تھا کہ ترستاتھامراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
----------------------------
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیاہے
کس قدر جلدبدل جاتے ہیں انسان جاناں
--------------------------------
نظم دُلہن تھی تیری ، غزل تیری محبوبہ
الوداع احمدفرازؔ ! جاتجھ کوخداکو سونپا
--------------------------
اس شخص سے فقط اتناساتعلق ہے فرازؔ
وہ پریشان ہوتو ہمیں نیندنہیں آتی
------------------------
کسی سے جُداہونا اگر اتناآسان ہوتا فرازؔ
تو جسم سے رُوح کو لینے کبھی فرشتے نہیں آتے
-------------------------------
ہم چراغوں کوتوتاریکی سے لڑناہے فرازؔ
گل ہوئے پر صبح کے آثاربن جائیں گے ہم
---------------------------------
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا
--------------------------------
اب تو درد سہنے کی اتنی عادت ہوگئی ہے
فرازؔ
جب درد نہیں ملتا تو دردہوتاہے-----
------------
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
--------------------------------
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
--------------------------------
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
----------------------------
اک پل میں جو برباد کر دیتے ہیں دل کی بستی کوفرازؔ
وہ لوگ دیکھنے میں اکژمعصوم ہوتے ہیں
-------------------------------
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
-------------------------
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
-------------------------------
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
----------------------------