Sad Poetry in Urdu
Sad Poetry
کتنا رویا تھا میں تیری خاطر
اب جو سوچوں تو ہنسی اتی ہے
ہماری زندگی کوئی گزار دے
ہمارے بس کی بات اب رہی نہیں
کتنا حسن اتفاق ہے ان کی گلی میں ہم
ایک کام سے گئے تھے ہر کام سے گئے
اس گلی نے یہ سن کر صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
بہت نزدیک اتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ ہے کیا
غیر کے دل میں اگر اترنا تھا
میرے دل سے اتر گئے ہوتے
ہم نہ بدلیں گے وقت کی رفتار کے ساتھ
جب بھی ملیں گے انداز پرانا ہوگا
ہم اپنی وفا پر تو فخر نہیں کرتے مگراتنا بھروسہ ہے
کہ تم ہمارے بعد ہم جیسا نہ پا سکو گے
شرک برداشت نہیں کر سکتی میں...
یا وہ مجھے مکمل چاہیے یا زرا سا بھی نہیں
گلہ بنتا ہی نہیں بےرخی کا
دل ہی تو تھا بھر گیا ہوگا.
میرے عزیز کبھی مُجھ سے خُوش نہیں ہوتے
تُمہیں بھی میری مُحبت سے مسئلہ ہی رھے گا
شکوہ
بڑی گستاخ ہے تیری یاد اسے تمیز سکہا دو...
دستک بہی نہیں دیتی اور دل میں اتر آتی ہے...
جواب شکوہ
ارے کیوں لگاتے ہو میری یاد پہ الزام.
اپنا ہی گہر ہو تو کون پوچھ کے آتا ہے
میں سیاہ رنگ کا شیدائی
اپنی ساری خوشیاں سیاہ کر بیٹھا
چل آ اک ایسی " نظم "کہوں
جو"لفظ"کہوں وہ ہو جائے،،
میں" آ " لکھوں تُو آ جائے
میں"بیٹھ"لکھوں تُو آ بیٹھے،،
میرے"شانے"پر سر رکھے تُو
میں"نیند"کہوں تُو سو جائے،،
میں کاغذ پر تیرے"ہونٹ"لکھوں
تیرے" ہونٹوں" پر مسکان آئے،،،
میں" دل " لکھوں تُو دل تھامے
میں" گم " لکھوں تُو کھو جائے،،
تیرے" ہاتھ " بناوں پنسل سے
پھر" ہاتھ " پہ تیرے ہاتھ رکھوں،
کچھ" الٹا سیدھا" فرض کروں
کچھ" سیدھا الٹا " ہو جائے،،،
میں " آہ " لکھوں تُو ہائے کرے
بےچین لکھوں"بےچین" ہو تُو،
پھر میں بےچین کا" ب" کاٹوں
تُجھے " چین" زرا سا ہو جائے،،
ابھی"ع" لکھوں تُو سوچے مجھے
پھر "ش"لکھوں تیری نیند اُڑے،
جب"ق" لکھوں تُجھے کچھ کچھ ہو
میں"عشق" لکھوں تُجھے ہو جائے
یوں چپ بیٹھ کے ہم کو ستایا نہ کیجیے۔
ہم محفلوں میں خوش ہے رولایا نہ کیجیے۔
نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے
خدا کے واسطے دیکھو نہ مُسکرا کے مجھے
اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں ہما را گزارا نہیں ہیں
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا
ان چیخ و پکار سے وحشت ہے مجھے.
اگر میں مرجاؤں تو ہنستے رہنا
یہ میرا عین جوانی میں پارسا ہونا
فقط توہین ہے، جوانی کی
کسی کی گود میسر نھیں ہے رونے کو
مزا تب اور بھی آتا آنکھیں بھگونے کو
میں خود کو نہیں میسر
اور تم ترستے ہو میرے لیے؟
میں بھی اپنے آخری لیکچر میں افسردہ رہا
ڈیسک پر سر رکھ کے وہ بھی دیر تک روتی رہی
ہم دیوانوں کی طرح بےوجہ ہنسا کرتے تھے
ہاتھ میں ہاتھ دیے رہ میں چلا کرتے تھے
میری چاہت میں کچھ لوگ سجا کرتے تھے
سج کے سینے سے میرے روز لگا کرتے تھے
دیکھ کے جن کو اب آنکھوں جلنے لگتی ہیں
جانے والے انہی پلکوں پہ رہا کرتے تھے
اب ترے نام پہ جل جاتے ہیں چل دیتے ہیں
ہم تیرا دل پر کبھی نام لکھا کرتے تھے
جس کی حسرت میں دل جلتا ہے شام و سحر
دل کی اس آگ میں وہ بھی تو جلا کرتے تھے
یہ جو آفتاب کوئی اجنبی سا گزرا ہے
اس کی بانہوں میں کبھی ہم بھی جیا کرتے تھے
جو کتابِ عشق کا باب تھا وہ جلا دیا تو بھلا دیا
وہ جو سات رنگا گلاب تھا وہ ہٹا دیا تو بھلا دیا
مجھے یاد تھا جو کتاب سا جو زبر سے زیر کا پیش تھا
جو سیاق سے تھا سباق تک وہ مٹا دیا تو بھلا دیا
جسے پڑھتے پڑھتے الجھ گئی مری زندگی بھی حساب سی
جو سوال سے تھا جواب تک وہ بتا دیا تو بھلا دیا
جو چھپا تھا میرے وجود میں مرے ہاتھ میں مرے ساتھ میں
جو عروج سے تھا زوال تک جو گھٹا دیا تو بھلا دیا
جو دیا تھا میرے خیال کا جو تھا چاند میرے سرور کا
وہ جو روشنی کا دیا سا تھا جو بجھا دیا تو بھلا دیا
جو نوائے دل کا مقام تھا جو صدائے دل سے تھا آشنا
جو خطا بھی تھا جو عطا بھی تھا وہ سلا دیا تو بھلا دیا
جسے مان تھا کہ مرا ہے وہ جو یہ کہتا تھا کہ ترا ہوں میں
جو غرور سے تھا بھرا ہوا وہ گنوا دیا تو بھلا دیا
وہ جو اجنبی سی منڈیر پر مجھے ملنے آتا تھا دور سے
جو یقین سے تھا بھرا ہوا وہ رلا دیا تو بھلا دیا
جو مثال تھا کسی حور کی جو کمالِ خال میں روپ تھا
جو کمال سے تھا جمال تک وہ جلا دیا تو بھلا دیا
قید میں رسموں کی جکڑے ہیں دیوانے کیسے
بند ہیں خواب کواڑوں میں بیگانے کیسے
دل یہ کہتا ہے تیرے ساتھ ہی چلتا جاؤں
وصل کے آتے ہیں مجھے یاد زمانے کیسے
ہجر میں کون تجھے پہلی سی محبت بانٹے
جائے گا دل یہ بھلا تجھ کو منانے کیسے
زہر میں ڈوبے ہوئے لہجوں کے نشیمن میں
لوگ ہیں بیٹھے میرے ساتھ نہ جانے کیسے
پڑھنے والوں سے یہ کیسے پڑھے جائیں گے
لکھنے والے نے لکھے ہیں یہ فسانے کیسے
اپنے اشکوں سے تیری یاد پہ ہم رقصاں ہیں
اشک سے نکھرے ہیں کچھ خواب پرانے کیسے
کہتی ہے آنکھ پتہ لے تُو دلِ ناداں کا
دل یہ کہتا ہے سنا دوں میں ترانے کیسے
عشق میں مجنوں ہے کوئی تو کوئی لیلٰی ہے
ملتے ہیں عشق میں میری جان خزانے کیسے
ملنے کی بات پہ میری جان دغا دیتے ہو
پیار تو پیار ہے پھر اس میں یہ بہانے کیسے
کوئی حد ہی نہیں ہے عاجزی کی
کئی دن سے مسلسل جھک رہا ہوں
اک بہانہ ہے مرے پاس ابھی جینے کا
ایک تصویر موبائل میں پڑی ہے تیری
"انہیں لگتا ہے وہ اہم ہیں
جی نہیں صرف وہم ہے
پیتے تھے جس کے ساتھ وہ ساقی بڑا حسیِں تھا
عادی بنا کے ظالم نے، میخانہ بدل لیا
میں چاہتاتوکب کا منا لیتا تمہیں
تم روٹھے نہیں بدل گیے تھے
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
میری روح ترستی ہےتیری خوشبو کیلیے
تو کہیں اور جو مہکے تو تکلیف ہوتی ہے
آییٔ جوشب وہ روتا رہا
تکیۓ پہ آنسوں بہاتا رہا
آنکھوں میں لیۓ آس جاگتا رہا
ملنے کی چاہ میں سوچتا رہا
چلا گیا ہے وہ انسان نہ کرتٌو یاد
ملے جو خواب میں کرتٌوفریاد
ہنس بول اٌس سے اور کہہ اٌسے کر تٌو بھی یاد
مجطرب نہ گھوم تٌوانجان
مخاطب رہ تٌو بھی ہے یہی انجام
آغاز سے تٌو پروان چڑھا ہے
منکیر نکیر بھی کہہ اٌٹھے العمان
یہ فلک یہ لہب شبنم آفشانی
ہو دٌعا تیرے گھر کی نگہبانی
رحمت و برکت ہے اللہ کی مہربانی
اے انسان کیا یہی ہے تیری زندگانی
بہت چھالے تھے اس کے پیروں میں
کمبخت اصولوں پہ چلا ہو گا
فتور نیتوں میں ہوتا ہے
اور قصور لکیروں کا نکالتے ہیں
نہ کوئی رنگ ہوگا نہ کوئی تنگ ہوگا ۔
جس دن میرے سر پی کفن ہوگا
خاک پہ خاک ڈالو اس میں ملاؤ مجھے
میں ایک مذاق ہوں سب مل کر اڑاؤ مجھے
کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی
میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی
مری داستاں کا عروج تھا تری نرم پلکوں کی چھاؤں میں
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تری آنکھ کیسے جھپک گئی
عادتیں ڈال کر اپنی توجہ کی
یکدم جو بدلتے ھیں ستم کرتے ھیں