Sad Poetry - 4 Line Poetry
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/sad-poetry.png)
Sad Poetry
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اس کا پردہ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری پردہ کیے بغیر
تلسمی سرزمین ہے جانے کیا ہو
یہاں کچھ بھی نہیں ہے جانے کیا ہو
عجب ہی کچھ ہے اس بستی کا انداز
کچھ اندازہ نہیں ہے جانے کیا ہو
نظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان میرا جی نہیں لگتا کوئی بھی تو نہیں ہے جو پکارے راہ میں مجھ کو
ہوں میں بے نام ایک انسان میرا جی نہیں لگتا
دشت میں خاک اڑانے ہی سے لیلہ ان پہنچتی تھی
اب مجنونی شہر میں کی ہے دیکھیں کیا چرچا بیٹھے
اب ہم بچھڑے تو سائے سے ورنہ اب تک ایسا تھا
سر سے کسی کا سایہ اٹھا تو برگد نیچے جا بیٹا
کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
دنیا میں دیکھ ائے یہ درواہ کہیں نہیں
صحرا پہ میں نے اج یہ نقطہ رقم کیا
دریا کا علم جز طے دریا کہیں نہیں
نہ جانے کون کن اتوار کا ہو
میرا مشورہ ہے ہر ایک سے مت مل۔ میری جان اے میری جان تو مجھے بھی
ہر ایک سے مت ملا ہر ایک سے مت مل
نہیں ذمہ اب ائندہ کو میرا
میں تجھ سے کہہ چکا ہر ایک سے مت مل
کچھ ایسے بھی ہیں جن سے تو ملا کر
میرا کہنا ہے کیا ہر ایک سے مت مل
ایک بستی ہے ، آدمی ہیں دو
ایک تو میں ہوں، اور دوسرا میں
گھر سے نکلا ہوں، دیکھیے کیا ہو
محترم دیکھ کر چلا کیجیے
رشته دل ترے زمانے میں
رسم ہی کیا نباہنی ہوتی
مُسکرائے ہم اُس سے ملتے وقت
رو نہ پڑتے اگر خوشی ہوتی
اے رفیقان انکسار پسند
جارحیت سے میں نے کام لیا
ان حسینان قصر دولت سے
میں نے تم سب کا انتقام لیا
اب میں سمجھا ہوں بیکسی کیا ہے
اب تمہیں بھی مرا خیال نہیں
ہائے! یہ عشق کا زوال کہ اب
ہجر میں ہجر کا ملال نہیں
جانے کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے
میں بہت کمزور ہوں اس شہر میں
ہو سکا اب تک نہ میرا فیصلہ
کب سے زیر غور ہوں اس شہر میں
میں سوچتا ہوں کہ تیرے شباب زریں میں
ہنر نمائی تزئین کے سوا کیا ہے
ذرا بتا تو سہی ، اے حسینہ زرکار
کتر حسن حیاتین کے سوا کیا ہے
بجا کہ ہم بھی یہیں آئے ہیں یہیں واعظ مگر جناب تو پہلے سے آئے بیٹھے ہیں حساب سُو دوزیاں ہم سے کیا اور اب کیا بولیں کہ ہم وہ ہیں جو تمہیں بھی گنوائے بیٹھے ہیں
اُن کے رُخ کو حیا کی سرخی کا
ایک پیغام آنے والا ہے
بس وہ گھبرائے ، بس وہ شرمائے
اب مرا نام آنے والا ہے
میں تو کب کا گزر چکا خود سے
تم بھی خود سے گزر تو سکتی ہو
کوئی درمان دل نہیں لیکن
تم میری جان مر تو سکتی ہو
اے سب کے خدا ! سخن کیے جا
بہتر ہے یہی کہ میں نہ بولوں
اب ایک ہی میری آرزو ہے
وہ یہ ہے کہ کچھ بھی میں نہ سمجھوں
سفری ہوں میں پر یہ مشکل ہے
پاس میرے سفر کی زاد نہیں
تم مرا خواب ، میری ذات تھیں تم
نام کیا ہے تمہارا ، یاد نہیں تمہارا
انجمن کی اداسی انکھوں سے
انسوؤں کا پیام کہہ دینا
مجھ کو پہنچا کے لوٹنے والو
سب کو میرا سلام کہہ دینا ہے
محرومی سی محرومی ہے، ناکامی کی ناکامی
غم تو دیوانہ کر دے اچھے خاصے فرزانے کو جون تو اک دیوانہ ٹھیرا اور پھر کیسا دیوانہ دیکھو جانے کیا کر بیٹھے روکو اس دیوانے کو