Ghalib Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
Ghalib Poetry
قفس میں ہوں‘ گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
....میرا ہونا برا کیا ہے‘ نوا سنجانِ گلشن کو!..
....ہو گئی ہے‘ غیر کی شیریں بیانی‘ کارگر
عشق کا‘ اس کو گماں‘ ہم بے زبانوں پر نہیں..
کعبہ میں جا رہا‘ تو نہ دو طعنہ‘ کیا کہیں
.....بھولا ہوں حقِ صحبتِ اہلِ کنشت کو..
...نالہ جُز حسنِ طلب‘ اے ستم ایجاد! نہیں
....ہے تقاضائے جفا‘ شکوۂ بیداد نہیں..
..غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
..بوسہ کو پوچھتا ہوں میں‘ منہ سے مجھے بتا کہ یوں..
...غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
..بوسہ کو پوچھتا ہوں میں‘ منہ سے مجھے بتا کہ یوں..
....مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
....سوائے خونِ جگر‘ سو جگر میں خاک نہیں..
...دیوانگی سے‘ دوش پہ زناّر بھی نہیں
...یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں..
...دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
...خاک ایسی زندگی پہ کہ‘ پتھر نہیں ہوں میں..
...ہے غنیمت کہ بہ امید گزر جائے گی عمر
....نہ ملے داد‘ مگر روزِ جزا ہے تو سہی..
...یہ ہم جو ہجر میں‘ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
...کبھی صبا کو‘ کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں..
....لطفِ نظارۂ قاتل دمِ بسمل آئے
...جان جائے تو بلا سے‘ پہ کہیں دل آئے..
دونوں جہان دے کے‘ وہ سمجھے‘ یہ خوش رہا
....یاں آ پڑی یہ شرم کہ‘ تکرار کیا کریں..
ذکر میرا‘ بہ بدی بھی‘ اسے منظور نہیں
....غیر کی بات بگڑ جائے‘ تو کچھ دور نہیں..
....میں ہوں مشتاقِ جفا‘ مجھ پہ خفا اور سہی
...تم ہو بیداد سے خوش‘ اس سے سوا اور سہی..
....کمالِ حسن اگر موقوفِ اندازِ تغافل ہو
...تکلف برطرف‘ تجھ سے تری تصویر بہتر ہے..
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
.....یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں..
....گدائے طاقتِ تقریر ہے زباں تجھ سے
....کہ خامشی کو ہے پیرایۂ بیاں تجھ سے..
.کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو ..
دھوتا ہوں جب میں پینے کو‘ اس سیم تن کے پانو
..رکھتا ہے‘ ضد سے‘ کھینچ کے باہر لگن کے پانو..
.... وارستہ اس سے ہیں کہ‘ محبت ہی کیوں نہ ہو
...کیجئے ہمارے ساتھ‘ عداوت ہی کیوں نہ ہو..
...کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
....ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے..
....حسد سے دل اگر افسردہ ہے‘ گرمِ تماشا ہو
...کہ چشمِ تنگ‘ شاید‘ کثرتِ نظاّرہ سے وا ہو..
...دل سراپا وقفِ سودائے نگاہِ تیز ہے
...یہ زمیں مثلِ نیستاں‘ سخت ناوک خیز ہے..
...پیدا کریں دماغ تماشائے سَرو و گل
...حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہیے..
نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور‘ میرے تن میں
ہوا ہے تارِ اشکِ یاس‘ رشتہ‘ چشمِ سوزن میں..
..سب کہاں! کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں‘ کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں..
....سیہ مستی ہے اہلِ خاک کو اَبرِ بہاری سے
زمیں جوشِ طرب سے جامِ لب ریزِ سفالی ہے..
....نظر بہ نقص گدایاں‘ کمالِ بے ادبی ہے
....کہ خارِ خشک کو بھی دعویِ چمن نسبی ہے..
....زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد
.....وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں..
.. .نہیں‘ کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
.....شبِ فراق سے‘ روز جزا‘ زیاد نہیں..
....شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ
.....خانۂ آگہی خراب! دل نہ سمجھ بلا سمجھ..
....زلفِ خیالِ نازک و اظہارِ بے قرار
....یارب! بیانِ شانہ کشِ گفتگو نہ ہو!..
...بہ رہنِ ضبط ہے آئینہ بندیِ گوہر
...وگرنہ بحر میں ہر قطرہ‘ چشمِ پرنم ہے..
...آرزوئے خانہ آبادی نے ویراں تر کیا
....کیا کروں‘ گر سایۂ دیوارِ سیلابی کرے..
...ہے وطن سے باہر اہلِ دل کی قدر و منزلت
....عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں..
...خیال سادگی ہائے تصور‘ نقشِ حیرت ہے
....پرِ عنقا پہ‘ رنگِ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں..
....رشک ہے آسایشِ اربابِ غفلت پر اسد!
....پیچ و تابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے..
....شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو
.....مدعا گم کردہ‘ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں..
....تمثالِ جلوہ عرض کر اے حسن! کب تلک
.....آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی..