Ghalib Poetry - Urdu Poetry 2 Lines
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/mirza-ghalib.png)
Ghalib Poetry
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے کا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو کیا ہوتا
ائینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
تیری تصویر کو دیکھا تو کہا لوگوں نے غالب
.اس کو زبردستی ہنسایا گیا ہے.
اجالوں میں مل ہی جائے گا کوئی نہ کوئی غالب
تلاش اس کو کرو جو اندھیروں میں ساتھ دے
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی اور دن
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس دن
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ہے اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
اخر اس درد کی دوا کیا ہے
وہ بک چکے تھے جب ہم خریدنے کے قابل ہوئے
زمانہ گزر گیا غالب ہمیں امیر ہوتے ہوتے
ہم تو فقیر لوگ ہیں ہم دل کی سلطنت
سستی بھی بیچ دیتے ہیں بازار دیکھ کر
عمر بھر یو ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم ائینہ صاف کرتے رہے
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانوں پہ دھرا ہوتا
ایسا مسئلہ درپیش ہے غالب
کہ جس کا اخری حل خودکشی نکلتا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا
.اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا.
حیران ہوں دل کو روؤں
.کہ پیٹوں جگر کو میں.
تھی خبر گرم کے غالب کے اڑیں گے پرزے
. دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا.
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ کے چاہو وہ رلاتا ضرور ہے
کیوں جل گیا نہ تابررخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوۓ گئے ہم اتنے ک بس پاک ہو گئے
جینا پڑتا ہے کبھی ظرف سے کمتر ہو کر
بھیک دریاؤں سے مانگی ہے سمندر ہو کر
دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں اتی
غالب ہمیں نہ چھیڑ کے پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہء طوفاں کیے ہوئے
بلبل کے کاروبار پہ ہے خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی ہم گسار ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
یہ فتنہ ادمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا اسماں کیوں ہو
کیا تعجب جو اس کو دیکھ کر ا جائے رحم
واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھ کو
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے دیتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے
دل سے مٹنا تیری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
.........درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا.........
دل ہی تو ہے سنگ و خشت درد سے بھر نہ ائے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
قسمت بری سہی پر طبیعت بری نہیں
ہے شکری کی جگہ کے شکایت نہیں کی مجھے
وہ کب سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
......ہائے اس زود پشمہاں کا پشیماں ہونا.....
"مجھے بھی یاد رکھنا جب لکھو تاریخِ وفا۔۔ " غالب "
کہ میں نے بھی لٹایا ہے کسی کی محبت میں سکون اپنا