Love Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/love-poetry.png)
Love Poetry
صحرا کو بڑا عالم ہے اپنی تنہائی پر غالب
اس نے دیکھا نہیں عالم میری تنہائی کا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی تھے ادمی کام کے
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب مہتاب میں
ادھی رات ہے اب وہاں کوئی نہیں ہوگا
اؤ غالب اس کی دیوار چوم اتے ہیں
لفظ کی شکل میں احساس لکھا جاتا ہے
یعنی گرمی کو پیاس لکھا جاتا ہے
میرے جذبات سے واقف ہے قلم میرا
میں وفا لکھوں تو تیرا نام لکھا جاتا ہے
کتنا خوف ہوتا ہے شام کے اندھیرے میں
پوچھ ان پرندوں سے جن کے گھر نہیں ہوتے
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
ان کے دیکھے سے جو ا جاتی ہے منہ پر رونق
کو وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
سب کچھ مل جاتا ہے اس دنیا میں فراز
فقط وہ شخص نہیں ملتا جس سے محبت ہو
لازم تھا کہ دیکھو میرا راستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
واہ غالب تیرے عشق کے فتوے
وہ دیکھیں تو ادا ہم دیکھیں تو گناہ
تنگی دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
موت ا جائے غالب
دل نہ ائے کسی پہ
قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی صحیح
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے کا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو کیا ہوتا
ائینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
تیری تصویر کو دیکھا تو کہا لوگوں نے غالب
.اس کو زبردستی ہنسایا گیا ہے.
اجالوں میں مل ہی جائے گا کوئی نہ کوئی غالب
تلاش اس کو کرو جو اندھیروں میں ساتھ دے
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی اور دن
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس دن
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ہے اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
اخر اس درد کی دوا کیا ہے
وہ بک چکے تھے جب ہم خریدنے کے قابل ہوئے
زمانہ گزر گیا غالب ہمیں امیر ہوتے ہوتے
ہم تو فقیر لوگ ہیں ہم دل کی سلطنت
سستی بھی بیچ دیتے ہیں بازار دیکھ کر
عمر بھر یو ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم ائینہ صاف کرتے رہے
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانوں پہ دھرا ہوتا
ایسا مسئلہ درپیش ہے غالب
کہ جس کا اخری حل خودکشی نکلتا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا
.اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا.
حیران ہوں دل کو روؤں
.کہ پیٹوں جگر کو میں.
تھی خبر گرم کے غالب کے اڑیں گے پرزے
. دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا.
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ کے چاہو وہ رلاتا ضرور ہے
کیوں جل گیا نہ تابررخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوۓ گئے ہم اتنے ک بس پاک ہو گئے
جینا پڑتا ہے کبھی ظرف سے کمتر ہو کر
بھیک دریاؤں سے مانگی ہے سمندر ہو کر
دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں اتی
غالب ہمیں نہ چھیڑ کے پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہء طوفاں کیے ہوئے