Love Poetry in Urdu
Love Poetry
....گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
...جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
...کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں ..
....رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
....ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو ..
----دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
---دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی ..
....کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
....جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر ..
....گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
...وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے ..
تمہیں کیا خبر میری محبت کی انتہا
میں نے خوابوں میں بھی تمہاری مہک پائی ہے
ادھوری بات ہے لیکن میرا کہنا ضروری ہے
میری سانس چلنے تک تیرا ہونا ضروری ہے
جو تجھے دیکھنے سے ملتا ہے
مسئلہ تو اس سکون کا ہے
محسوس کر مجھے تو خود میں کہیں پہ ہے
تیری دھڑکن جہاں میں ہوں وہیں پہ
دل و جان سے کریں گے حفاظت تیری
بس ایک بار کہہ دے امانت ہوں میں تیری
یہ کیا دے گا تمہیں تمہاری شخصیت کی خبر کبھی
میری انکھوں سے دیکھو کتنے لاجواب ہو تم
یہ ائینہ کیا دے گا تمہیں تمہاری شخصیت کی خبر
کبھی میری انکھوں سے دیکھو کتنے لاجواب ہو تم
اپنے دل سے کہہ دو کسی اور کی محبت کو نہ سوچے
ایک میں ہی کافی ہوں تجھے ساری عمر چاہنے کے لیے
یقینا میرا خدا مہربان ہے مجھ پر
میری دنیا میں تیری موجودگی یوں ہی تو نہیں
میں حسابوں میں اب نہیں پڑتا
تم کو بے حساب چاہتا ہوں
سنا ہے لوگ جہاں کھوئیں وہیں ملتے ہیں
میں اپنے اپ کو تجھ میں تلاش کرتا ہوں
تجھے دیکھنے کے سو بہانے تھے
وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے
عشق کے نام پہ جیتے ہیں عشق کے نام پر مرتے ہیں
ہم یہ نہیں سوچتے لوگ کیا سوچتے ہیں
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
ویسے تو عشق ممنون ہے لیکن
جاؤ تمہیں مجھ سے کرنے کی اجازت ہے
اپنی سانسوں کے دامن میں چھپا لو مجھ کو
تیری روح میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
قبول صرف ایک دعا ہو جائے
تمہارا میرے ساتھ نکاح ہو جائے
محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز
گمنام زندگی تھی تو کتنا سکون تھا
ممکن کہاں ہے تجھ سے جدائی متائے جاں
تو میرا لباس ہے میں تیرا لباس ہوں
ساری دنیا کی محبت سے کنارہ کر کے
ہم نے دیکھا فقط خود کو تمہارے لیے
تیری سادگی تیری عاجزی تیری ہر ادا کمال ہے
مجھے فخر ہے مجھے ناز ہے میرا یار بے مثال ہے
نہ پوچھو حسن کی تعریف ہم سے
محبت جس سے ہو بس وہ حسیں ہیں
ہمیں یہ گردش آیام ہی نہیں چھوڑتی ورنہ
میں اؤں تجھے چاہوں تیرے بال سنواروں
غزل لکھی ان کے ہونٹوں کو چوم کر
وہ ضد کر کے بولے پھر سے سناو
کرنے کو بہت کچھ تھا مگر طے یہ پایا
ہم اہل محبت والے ہیں محبت ہی کریں گے
اس کے گلے پہ نشان چھوڑ ایا ہوں
مانگی تھی محبت کی نشانی اس نے
تم پر نہیں مرتے مرتے ہیں ان چار پر
ناز پر انداز پر رخسار پر گفتار پر
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے ہو کہ ارزو کیا ہے
درد ہو دل میں تو دوا کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجیے
ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد اتا ہے
وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو بہت اچھا ہے پر بد نام بہت ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
دفن کرنے سے پہلے میرا دل نکال لینا غالب
کہیں خاک میں نہ مل جائیں میرے دل میں رہنے والے