John Elia Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/john-elia.png)
John Elia
میں ایک ایسا کھیل، کھیل کر آیا ہوں
---میں عشق کے جال سے نکل کر آیا ہوں
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
---وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا
----شاید وہ میرا خواب تھا شاید خیال تھا
ہم نے اے سر زمیں خواب و خیال
----تجھ سے رکھا ہے شوق کو پر حال
خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
---میں بھی برباد ہو گیا تو بھی
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
---میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
نہیں شوریدگانِ شہر میں وہ سوزِ جاں اب کے...
ہیں شامیں سوختہ جانوں کی بے شورِ فغاں اب کے...
گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعقب میں
زمیں اگے ہے اور اسماں میرے پیچھے
یہ بے خودی یہ لبوں کی ہنسی مبارک ہو
تمہیں یہ سالگرہ کی خوشی مبارک ہو
تیرے جانے کے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی
ایک تیری برابری کے لیے
خود کو کتنا گرا چکا ہوں میں
تو میرا حوصلہ تو دیکھ, داد تو دے کے اب
مجھے شوق کمال بھی نہیں ,خوف زوال بھی نہیں
ایک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی
یعنی اج ہے میری سالگرہ
یعنی اج ائے تھے ہم اس جہان خراب میں
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون, یارو کے یار تھے ہم تو
جو میں زہر اگلتا ہوں نا
ایک ناگن کو منہ لگایا تھا
بے دلی اس قدر ہے کہ اج ہمیں تم سے
کچھ نہیں چاہیے حتی کہ محبت بھی نہیں
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے دلی کے خوددار ہو گئے
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چاہیے
پوچھتی ہیں اپ ,اپ اچھے تو ہیں
جی میں اچھا ہوں دعائیں چاہیے
حال یہ ہے کہ اپنی حالت پر
غور کرنے سے بچ رہا ہوں میں
بنت ادم کے نرم لہجوں نے
ابن ادم بگاڑ رکھے ہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اب خوشی دیکھ کر ازما لے خدا
ان غموں سے تو میں نہیں مرتا
چاند کی پگلی ہوئی چاندنی میں
اؤ کبھی رنگے سخن کھولیں گے
تم نہیں بولتی مت بولو
ہم بھی اب تم سے نہیں بولیں گے
ہے نصف شب وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں ایا
___ کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہوگا___
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
اخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیا بتاؤں میں اپنا پاس انا
میں نے ہنس ہنس کے ہار مانی ہے
تم جب اؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
ورنہ یوں تو کسی کے نہیں سنی میں نے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
ہم وہ ہیں جو خدا کو بھول گئے
تو میری جان کس گمان میں ہے
اتنی شدّت کی بغاوت ہے میرے جذبوں میں
میں کسی روز محبت سے مکر جاؤں گا
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا
شاید وہ میرا خواب تھا شاید خیال تھا
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا
سوائے پاس آداب تکلف اور کیا ہوگا
تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤ تو آؤں میں