John Elia Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/john-elia.png)
John Elia
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
---فقط اک میرا نام تھا میرا
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
---خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
---شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
---بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
بے قراری سی بے قراری ہے
---وصل ہے اور فراق طاری ہے
آدمی وقت پر گیا ہوگا
---وقت پہلے گزر گیا ہوگا
کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
----ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
اب کسی سے مرا حساب نہیں
---میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
جاؤ قرار بے دلاں شام بخیر شب بخیر
---صحن ہوا دھواں دھواں شام بخیر شب بخیر
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
---غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
---داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
---میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
---وہ بھی تمام ہو گیا میں بھی تمام ہو گیا
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
---پاؤں نہیں تھے درمیاں آج بڑا سفررہا
جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا وہ کون تھا کہاں تھا
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
---زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
---کون جانے وہ کون تھا کیا تھا
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
---اس جسم کی میں جاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ﻣﺮﻣﭩﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
---ﻭﺟﺪ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
---ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
---چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
---آج ہر شخص مر گیا ہوگا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
---جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
---تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
تو دل شکن ہے پر یارو
---عقل سچی تھی عشق جھوٹا تھا
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
---اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
---کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
---اس کے بغیر اس کی تمنا کئے بغیر
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
---کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
---اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے
ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
---اور مجھ دل کی بدن آزاریاں
کیا پردے نے پردہ پوشی کے علاوہ
---کوئی اور فرض بھی انجام دیا ہے
خود سے رشتے رہے کہاں ان کے
---غم تو جانے تھے رائیگاں ان کے
کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
---حالت حال یک صدا مانگو
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
---یاد تھے یادگار تھے ہم تو
ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
---ہجر میں کرنا ہے کیا؟ یہ تو بتاتے جایئ
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
---ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
---ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام