John Elia Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/john-elia.png)
John Elia
تھا جب تک معیاد کے اندر عہد وصال شام فراق
کتنی خیال انگیز آتی تھی بعد ملال شام فراق
بات ہے راستے پہ جانے کی
اب جانے کا راستہ ہی نہیں
ایک مثال ہے کہ ہے ایک فراق ہے کہ ہے
حال بہ حال ہم بہ ہم کیف بہ کیف کم بہ کم
شہر کے جنگل والے مگن ہیں دفتی کی دیواروں پر
پیتل کے پھول اور پیڑوں کو قابوں میں گواہ بیٹھے
ایک خلش ایسی ہے دل میں جس کا درماں کوئی نہیں
کوئی خلش اب دل میں نہیں ہے سب کچھ ہم نمٹا بیٹھے
دشت میں خاک اڑانے ہی سے لیلہ ان پہنچتی تھی
اب مجنونی شہر میں کی ہے دیکھیں کیا چرچا بیٹھے
اب ہم بچھڑے تو سائے سے ورنہ اب تک ایسا تھا
سر سے کسی کا سایہ اٹھا تو برگد نیچے جا بیٹا
کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
دنیا میں دیکھ ائے یہ درواہ کہیں نہیں
صحرا پہ میں نے اج یہ نقطہ رقم کیا
دریا کا علم جز طے دریا کہیں نہیں
نہ جانے کون کن اتوار کا ہو
میرا مشورہ ہے ہر ایک سے مت مل۔ میری جان اے میری جان تو مجھے بھی
ہر ایک سے مت ملا ہر ایک سے مت مل
میں ہوں ایسے سفر پر جانے والا
کہ جس کی کوئی تیاری نہیں ہے
کیوں کیا ، کتنا بے آرام ہوں میں
مری امید ابھی ہاری نہیں ہے
ولی حالت بھی اب طاری نہیں ہے
تو کیا یہ دل کی ناداری نہیں ہے
عجب ناقدر ہے وہ شخص اپنا
مجھے کہنا پڑا ، ہر اک سے مت مل
نہیں ذمہ اب ائندہ کو میرا
میں تجھ سے کہہ چکا ہر ایک سے مت مل
کچھ ایسے بھی ہیں جن سے تو ملا کر
میرا کہنا ہے کیا ہر ایک سے مت مل
وہ کہکشاں وہ رہ گزر دیکھنے چلو
جون ایک عمر ہو گئی گھر دیکھنے چلو
روح ازاد ہو مجبور تقاضا نہ رہے
ہے تمنا کہ مجھے کوئی تمنا نہ رہے
بس اپ ہی نہ دیجیے یہ مشورے ہمیں
ہیں اور بھی ستم جو اٹھایا کروں گی میں
نقش کہن کو دل سے مٹایا نہ جائے گا
گزرے ہوئے دنوں کو بلایا نہ جائے گا
ایک بستی ہے ، آدمی ہیں دو
ایک تو میں ہوں، اور دوسرا میں
گھر سے نکلا ہوں، دیکھیے کیا ہو
محترم دیکھ کر چلا کیجیے
رشته دل ترے زمانے میں
رسم ہی کیا نباہنی ہوتی
مُسکرائے ہم اُس سے ملتے وقت
رو نہ پڑتے اگر خوشی ہوتی
اے رفیقان انکسار پسند
جارحیت سے میں نے کام لیا
ان حسینان قصر دولت سے
میں نے تم سب کا انتقام لیا
اب میں سمجھا ہوں بیکسی کیا ہے
اب تمہیں بھی مرا خیال نہیں
ہائے! یہ عشق کا زوال کہ اب
ہجر میں ہجر کا ملال نہیں
جانے کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے
میں بہت کمزور ہوں اس شہر میں
ہو سکا اب تک نہ میرا فیصلہ
کب سے زیر غور ہوں اس شہر میں
میں سوچتا ہوں کہ تیرے شباب زریں میں
ہنر نمائی تزئین کے سوا کیا ہے
ذرا بتا تو سہی ، اے حسینہ زرکار
کتر حسن حیاتین کے سوا کیا ہے
بجا کہ ہم بھی یہیں آئے ہیں یہیں واعظ مگر جناب تو پہلے سے آئے بیٹھے ہیں حساب سُو دوزیاں ہم سے کیا اور اب کیا بولیں کہ ہم وہ ہیں جو تمہیں بھی گنوائے بیٹھے ہیں
اُن کے رُخ کو حیا کی سرخی کا
ایک پیغام آنے والا ہے
بس وہ گھبرائے ، بس وہ شرمائے
اب مرا نام آنے والا ہے
میں تو کب کا گزر چکا خود سے
تم بھی خود سے گزر تو سکتی ہو
کوئی درمان دل نہیں لیکن
تم میری جان مر تو سکتی ہو
اے سب کے خدا ! سخن کیے جا
بہتر ہے یہی کہ میں نہ بولوں
اب ایک ہی میری آرزو ہے
وہ یہ ہے کہ کچھ بھی میں نہ سمجھوں
سفری ہوں میں پر یہ مشکل ہے
پاس میرے سفر کی زاد نہیں
تم مرا خواب ، میری ذات تھیں تم
نام کیا ہے تمہارا ، یاد نہیں تمہارا
انجمن کی اداسی انکھوں سے
انسوؤں کا پیام کہہ دینا
مجھ کو پہنچا کے لوٹنے والو
سب کو میرا سلام کہہ دینا ہے
محرومی سی محرومی ہے، ناکامی کی ناکامی
غم تو دیوانہ کر دے اچھے خاصے فرزانے کو جون تو اک دیوانہ ٹھیرا اور پھر کیسا دیوانہ دیکھو جانے کیا کر بیٹھے روکو اس دیوانے کو
شام غم کروٹ بدلتا ہی نہیں
وقت بھی خوددار ہے تیرے بغیر
اب آ کہ بے گلہ ہی ملیں گے ہم اب تجھے
کوئی بھی غم رہا نہ غم دہر میں ہمیں
ہر سانس اس کا شعلہ خواہش فروز تھا
کیسا ہوں فزا وہ لگا قہر میں ہمیں
تھی متاع نشاطِ جاں یہ گلی
ہم نے کچھ دن یہاں گنوائے تھے
جانے کس حال میں تھا میں اک شام
لوگ کچھ پوچھنے کو آئے تھے
تند لمحوں سے ٹوٹ پھوٹ کے میں
تیری بانہوں میں آن پڑتا ہوں
کن صفوں میں شریک ہو کے لڑوں
اب تو میں بس تھی سے لڑتا ہوں
پرده داری کے ساتھ ہم دونوں
کتنے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں
نام لیتے ہوئے محبت کا
میں بھی ڈرتا ہوں، وہ بھی ڈرتے ہیں
تیز رو ، جنگلوں کی رات اور میں
جانے اس وقت کیا بجا ہو گا
اس کی دوری میں ہیں سفر در پیش
جو مری راه دیکھتا ہوگا
اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر
مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
ہوش میری خوشی کا دشمن ہے
تو مجھے ہوش میں نہ آنے دے
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے تھوڑا چھوٹا میں بھی ٹھہرا ، تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
جنگ آنا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا، بکھرا بکھرا تو بھی ہے
جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما سہم تو بھی ہے
اک مدت سے اصل قائم صرف ہمارے ہی رہی کیوں سے ملتا رہتا ہوں میں، سب سے ملتا تو بھی ہے
اپنے اپنے دل کے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ہم دونوں گر تم کم کم میں بھی بہت ہوں کھویا کھویا تو بھی ہے
ہم دونوں تجدید رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا تنہا تنہا میں ہی نہیں ہوں، تنہا تنہا تو بھی ہے
حد سے فراغ آگے جانے کے دونوں آنا کی راہوں پر کچھ شرمندہ لیکن میں ہوں، کچھ شرمندہ تو بھی ہے
--میرا اک مشورہ ھے التجا نہیں
--
تو میرے پاس سے اس وقت جا نہیں
---نہیں معلوم کیا سازش ہے دل کی
---کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے