Attitude Poetry John Elia Poetry Sad Urdu Ghazal

John Elia Poetry in Urdu

Welcome to Urdu Attitude Poetry! Here you can read and copy all types of Urdu poetry. In terms of lines, you can read two lines, four lines and Urdu Ghazal here. Apart from this, you can also read poetry by poets.
Poet

John Elia

John Elia was a famous poet and scholar from Pakistan. He was born on December 14, 1931, in Amroha, British India (now in Uttar Pradesh, India). His full name was Syed Hussain Sibt-e-Asghar Naqvi, but he is widely known by his pen name, John Elia.

گماں ہے تیرے لوٹ آنے کا ......
دیکھ کتنا بدگمان ہوں میں .......

--: Sad Poetry :--

گماں ہے تیرے لوٹ آنے کا ....
دیکھ کتنا بدگمان ہوں میں ......

--: Sad Poetry :--

ہاتھ چوموں ، گلے لگاؤں میں.....
تیری باتیں کوئی سنائے تو.....

--: Sad Poetry :--

تم نے اچھا کیا تنہائی دی....
کچھ نہ دیتے تو گلہ رہتا......

--: Sad Poetry :--

ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ.....
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ......

--: Sad Poetry :--

....جی چاہتا ہے آگ لگا کر خد کو
خود کہیں دور کھڑا ہو کر تماشہ دیکھوں...

--: Sad Poetry :--

..جو رعنائی نگاہوں کے لیے سامان جلوہ ہے
...لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
..یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
...یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی

--: Sad Poetry :--

....جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
....آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا

--: Sad Poetry :--

....میرے سب طنز بےاثر ہی رہے
....تم بہت دور جاچکی ہو کیا

--: Sad Poetry :--

....ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
....جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے

--: Sad Poetry :--

....پردہ داری کے ساتھ ہم دونوں
.....کتنے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں
....نام لیتے ہوئے محبت کا
.....میں بھی ڈرتا ہوں وہ بھی ڈرتے ہیں

--: Sad Poetry :--

....شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
...لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں

--: Sad Poetry :--

....تو مجھ کو مجھ سے روک رہا ہے کمال ہے
....منظر تو رک کے دیکھ لوں اپنے زوال کا

--: Sad Poetry :--

....زخم اتنے گہرے ہیں اظہار کیا کریں
....ہم خود بن گئے نشانہ وار کیا کریں
.....ہم مر گئے مگر کھلی رہی آنکھیں
......اس سے زیادہ ہم اس کا انتظار کیا کریں

--: Sad Poetry :--

ان  کے رخ کو حیا کی سرخی کا 
ایک  پیغام  آنے  والا  ہے 
 بس وہ گھبرائے بس وہ شرمائے 
اب  مرا  نام  آنے  والا  ہے 

--: Sad Poetry :--

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
.....کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

--: Sad Poetry :--

جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجے مرا
.....یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے

--: Sad Poetry :--

سر میں تکمیل کا تھا اک سودا
ذات میں اپنی تھا ادھورا میں
کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں
. . . .. تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں

--: Sad Poetry :--

...پل قیامت کے سود خوار ہیں جون
.....یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں

--: Sad Poetry :--

...اب میں سمجھا ہوں بے کسی کیا ہے
....اب تمہیں بھی مرا خیال نہیں
...ہائے یہ رشق کا زوال کہ اب
..... ہجر میں ہجر کا ملال نہیں

--: Sad Poetry :--

تو کبھی سوچنا بھی مت تو نے گنوا دیا مجھے
....مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی

--: Sad Poetry :--

...وہی  دیوار   ہے  اپنی وہی   در ہے در  پیش 
..کیسے ٹھیروں میں یہاں پھر وہی گھر ہے درپیش

--: Sad Poetry :--

میں کیا بتاؤں کسی بے وفا کی مجبوری 
.....کبھی خیال جو آیا تو آنکھ بھر آئ

--: Sad Poetry :--

....آ بسے ہیں تیرے دیار سے دور 
....رہنے والے تو ہم وہیں کے ہیں

--: Sad Poetry :--

ہے  یہ   بازار  جھوٹ  کا بازار 
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم 
 کر  کے  اک دوسرے سے عہد وفا 
آؤ  کچھ  دیر  جھوٹ بولیں ہم 

--: Sad Poetry :--

تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا
مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا
نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا
دوستو، ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا

--: John Elia Ghazal :--

اُس نے ہم کو گمان میں رکھا
اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا
کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے
حشر اُس کی اٹھان میں رکھا
جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب
ایک چوب، اک چٹان میں رکھا
لمحے لمحے کی اپنی تھی اِک شان
تُو نے ہی ایک شان میں رکھا
ہم نے پیہم قبول و رد کر کے
اُس کو اک امتحان میں رکھا
تم تو اس یاد کی امان میں ہو
اُس کو کِس کی امان میں رکھا
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا

--: John Elia Ghazal :--

---ذکرِ گل ہو خار کی باتیں کریں
لذت و آزار کی باتیں کریں
---ہے مشامِ شوق محرومِ شمیم
زلفِ عنبر بار کی باتیں کریں
---دور تک خالی ہے صحرا، نظر
آہوے تاتار کی باتیں کریں
---آگ کچھ ناساز ہے طبعِ خِرد
نرگسِ بیمار کی باتیں کریں
---یوسفِ کنعاں کا ہو کچھ تزکرہ
مصر کے بازار کی باتیں کریں
---آؤ اے خفتہ نصیبو، مفلسو
دولتِ بیدار کی باتیں کریں
---جون آؤ کارواں در کارواں
منزلِ دشوار کی باتیں کریں

--: John Elia Ghazal :--

---کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
--توڑ لو پھول، پھول چھوڑو مت
--باغباں ہم تو اس خیال کے ہیں
---دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت

--: Sad Poetry :--

--کچھ دشت اہل دل کے حوالے ہوئے تو ہیں
--ہمراہ کچھ جنوں کے رسالے ہوئے تو ہیں

----مانا بجھے ہیں تیر سخن زہر طنز میں
--سانچے میں التفات کے ڈھالے ہوئے تو ہیں

----گر ہو سکا نہ چارہِ آشفتگی تو کیا
--آشفتہ سر کو لوگ سنبھالے ہوئے تو ہیں

---وابستگان زلف سے کھنچنا نہ چاہیے
---کچھ پیچ تیری زلف میں ڈالے ہوئے تو ہیں

---وحشت میں کچھ خبر ہی نہیں کیا لکھا گیا
---اوراقِ چند صبح سے کالے ہوئے تو ہیں

--: John Elia Ghazal :--

---اب جنوں کب کسی کے بس میں ہے
اُس کی خوشبو، نفس نفس میں ہے
---حال اس صید کا سنایئے کیا ؟
جس کا صیاد خود قفس میں ہے
---کیا ہے گر زندگی کا بس نہیں چلا
زندگی کب کسی کے بس میں ہے
---غیر سے رہیو تُو ذرا ہشیار
وہ ترے جسم کی ہوس میں ہے
----پاشکستہ پڑا ہوں مگر
---دل کسی نغمہِ جرس میں ہے
---جون ہم سب کی دسترس میں ہیں
---وہ بھلا کس کی دسترس میں ہے

--: John Elia Ghazal :--

---نہ کر قبول تماشائی چمن ہونا
ہے تجھ کو نازش نسرین و نسترن ہونا
---ابھی تو زور پہ سودا ہے بت پرستی کا
خدا دکھائے برہمن کا بت شکن ہونا
---کروں میں کیا رہِ ہستی کے پیچ و خم کا گلہ
عزیز ہے تری زلفوں کا پر شکن ہونا
---کوئی صدا مرے کانوں میں اب نہیں آتی
ستم ہوا ترے نغموں کا ہم وطن ہونا
---یہ دلبری یہ بزاکت یہ کارِ شوق و طلب
----مٹا گیا مجھے شیریں کا کوہکن ہونا
--ہجومِ غم میں سجائی ہے میں نے بزم خیال
نظر جھکا کے ذرا پھر تو ہم سخن ہونا

--: John Elia Ghazal :--

---تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزہ آجائے
---میر محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اٹھا دو تو مزہ آجائے
---تم نے احسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ احسان جتا دو تو مزہ آجائے
---اپنے یوسف کو زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزہ آجائے
--چین پڑتا ہی نہیں ہے تمہیں اب میرے بغیر
اب جو تم مجھ کو گنوا دو تو مزہ آجائے

--: John Elia Ghazal :--

---ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
---اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
---دلِ برباد یہ خیال رہے
---اُس نے گیسو نہیں سنوارے ہیں
---ان رفیقوں سے شرم آتی ہے
---جو مرا ساتھ دے کے ہارے ہیں
---اور تو ہم نے کیا کِیا اب تک
---یہ کیا ہے کہ دن گزارے ہیں
---اس گلی سے جو ہو کے آئے ہوں
---اب تو وہ راہرو بھی پیارے ہیں
---جوؔن ہم زندگی کی راہوں میں
---اپنی تنہا روی کے مارے ہیں

--: John Elia Ghazal :--

---ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے
شراب تلخ سہی ایک بار میں کیا ہے
---مآلِ کوہکنی بھی نہ ہو سکا حاصل
نجانے حیلہ شیریں شکار میں کیا ہے
---جواب کچھ نہ ملے گا مگر سوال تو کر
کہ سوزِ غنچہ و صوتِ ہزار میں کیا ہے
---ستم شعار نے خود کتنے زخم کھائے ہیں
کبھی شمار تو کرنا شمار میں کیا ہے
نزاکتوں نے نچوڑا ہے محنتوں کا لہو
---نگار خانہٓ شہر و دیار میں کیا ہے
یہ انبساطِ گلستاں یہ ارتعاشِ نسیم
اگرچہ کچھ بھی نہ ہوں اعتبار میں کیا ہے
---غبارِ رنگ فضا ہی میں پَر فشاں رہتا
اِس اہتمامِ نشستِ غبار میں کیاہے

--: John Elia Ghazal :--

---میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
---کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں

--: Sad Poetry :--

---دل کے ارمان مرتے جاتے ہیں
سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں
---محملِ صبحِ نو کب آئے گی
کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں
---مسکراتے ضرور ہیں لیکن
زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں
---تھی کبھی کوہ کن مری شیریں
اب تو آداب برتے جاتے ہیں
---بڑھتا جاتا ہے کاروانِ حیات
ہم اُسے یاد کرتے جاتے ہیں
---شہر آباد کر کے شہر کے لوگ
اپنے اندر بکھرتے جاتے ہیں
---روز افزوں ہے زندگی کا جمال
آدمی ہیں کہ مرتے جاتے ہیں
---جونؔ یہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں

--: John Elia Ghazal :--

-مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے
---حرم ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے
بت گری بھول گئے بت شکنی بھول گئے
--کوچہء کج کلہاں تیرے وہ ہجرت زدگان
خود سری بھول گئے خود نگری بھول گئے
--یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب
کیا مرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے
-میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟
---مجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید مری شوریدہ سری بھول گئے
--اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
---اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے
--اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ، اس کی گلی بھول گئے
--کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے

--: John Elia Ghazal :--

---کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
---یہاں وہ کون ہے جو انتخاب غم پہ قادر ہے
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہو گا
-نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا
---صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
-ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
---نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دلنشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
---دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے
---سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہو گا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
---کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہو گا
صبا! شکوہ ہے مجھ کو ان دریچوں سے ، دریچوں سے؟
---دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا

--: John Elia Ghazal :--

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
---اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
---کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
---یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
---یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
---یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
---بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
---یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
---حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
---معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
---دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
---وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں

--: John Elia Ghazal :--

Page 4 of 7