Allama Iqbal Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/allama-iqbal.png)
Allama Iqbal
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں !
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
==========================
....پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
....مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
....عالم آب و خاک و باد سر عیاں ہے تو کہ میں
وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں
.....خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
.....تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
..جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں
...وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں
.....وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
....مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
....نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
... اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
... نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
....مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
دگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
.....دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
....خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
....اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
.....اک دانش نورانی اک دانش برہانی
.....ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
....یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
....کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
....متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
....مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
.... کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
......نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
....کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
. ...نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
....کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
.....نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
...نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
......جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
....ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
....وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام
....اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
....ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
....میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
.....غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
....عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
....عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم
....خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
....سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
...پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
......تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی
....لا کر برہمنوں کو سياست کے پيچ ميں
.....زناريوں کو دير کہن سے نکال دو
.....ہر چیز ہے محو خودنمائی
......ہر ذرہ شہید کبریائی
امین راز ہے مردان حر کی درویشی
....کہ جبرئیل سے ہے اس کو نسبت خویشی
----زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری
....مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
...عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
...تھی سراپا بہار جس کی زمیں
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی
.....خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی!
تو نے پوچھي ہے امامت کي حقيقت مجھ سے
.....حق تجھے ميري طرح صاحب اسرار کرے
جبرئیل
....ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
.....لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
....افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
....کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي
....ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئي
سو سو امیدیں بندھتی ہے اک اک نگاہ پر
.....مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی
لطف ہمسايگي شمس و قمر کو چھوڑوں
....اور اس خدمت پيغام سحر کو چھوڑوں
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
....کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں