Allama Iqbal Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/allama-iqbal.png)
Allama Iqbal
---خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
---جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لا زوال کیا
بندہ پروری کا پھر بھی کچھ دور تھا آپ تک! اقبال
اب تو صدائے عارف! بندہ کی تلاش میں گُونج رہی ہے
علوم یاد کر لیئے آج دنیا کے سارے تم نے
---دیواروں پر اپنی سندیں سجائے بیٹھے ہو
---خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
---تو میرا شوق دیکھ مرا انتظاردیکھ
--تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
--ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
---نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
...مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
..ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
...بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
----نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
---تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
---علم میں بھی سرور ہے لیکن
---یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے.
---پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
...ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل ...
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
---کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
---کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل
---فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
---زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
---اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
---نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
---لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
---کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
---مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
....زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا....
...اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
...خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
...عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
---شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
---من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
----پانی پانی کر گئی مجکو قلندر کی یہ بات
--تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
---عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
---نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
--جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
نشان سجدہ سجا کر بہت غرور نہ کر
وہ نیتوں سےنتیجے نکال لیتا ہے
ضمیر جاگ ہی جاتا ہے اگر زندہ ہو
اقبال کبھی گناہ سے پہلے تو کبھی گناہ کے بعد
بات سجدوں کی نہیں خلوص کی ہوتی ہے اقبال
ہر میخانے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا
نہ تو زمین کے لیے ہے نہ تو اسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی اتے تھے وضو کے فرائض بہت
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کسی عقیدت کا صلہ مانگے گا
حیا نہیں ہے زمانے کی انکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالی ہیں
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی سے ہیں پیچھے
جس قوم کا اغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میرے سادگی دیکھ میں کیا چاہتا
ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سدا چاہتا ہوں