Attitude Poetry John Elia Poetry Sad Urdu Ghazal

Meer Taqi Meer Poetry in Urdu

Welcome to Urdu Attitude Poetry! Here you can read and copy all types of Urdu poetry. In terms of lines, you can read two lines, four lines and Urdu Ghazal here. Apart from this, you can also read poetry by poets.
Poet

Meer Taqi Meer

Meer Taqi Meer, was an eminent Urdu and Persian poet of the 18th century in Mughal India. Born in 1723 in Agra, India, and later residing in Delhi, Meer Taqi Meer's poetry is celebrated for its eloquence and classical beauty. He is considered one of the pioneers of the Urdu ghazal, a poetic form characterized by rhyming couplets and themes of love, loss, and mysticism.

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
----------------------

--: Sad Poetry :--

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
===================

--: Sad Poetry :--

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
=======================

--: Sad Poetry :--

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
---------------------------

--: Sad Poetry :--

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے
-------------------------

--: Sad Poetry :--

دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
----------------------

--: Sad Poetry :--

یاروں کو کدورتیں ہیں اب تو ہم سے....
جس روز کہ ہم جائیں گے اس عالم سے.....
اس روز کھلے گی صاف سب پر یہ بات.....
اس بزم کی رونق تھی ہمارے دم سے.....

--: :--

کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے.....
کیسا کیسا ہمیں کھپایا تونے.....
اول کے سلوک میں کہیں کا نہ رکھا.....
آخر کو ٹھکانے ہی لگایا تونے.....

--: :--

کیا کہیے ادا بتوں سے کیا ہوتی ہے...
جو دل زدگاں پہ یہ جفا ہوتی ہے.....
یہ کیا کہ سجود میں نہ دیکھا بگڑے.....
اک وقت نماز بھی قضا ہوتی ہے....

--: :--

کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں....
روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں......
جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے.....
شائستہ ہوں رونے کا جہاں تک روؤں.....

--: :--

کی حسن نے تجھ سے بے وفائی آخر...
خوبی نہ رہی نہ میرزائی آخر......
رونق نہ رہی غبار خط سے منھ پر......
اس سبزقدم نے خاک اڑائی آخر......

--: :--

وہ عہد گیا کہ جور اس کے سہیے....
وہ بات نہیں رہی کہ چپکے رہیے.....
جب جی ہی چلا تو صرفہ کیا ہے.....
بے صرفہ جو کچھ کہ منھ میں آئے کہیے.....

--: :--

ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے...
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے.....
ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق.......
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے....

--: :--

مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے....
خاطر پہ جہاں جہاں ملال آتا ہے.....
وے ووں گئے جان یوں چلی جاتی ہے آہ.....
رہ رہ کے ہمیں یہی خیال آتا ہے.....

--: :--

ہیں گوکہ سبھی تمھاری پیاری باتیں......
پر جی سے نہ جائیں گی تمھاری باتیں.....
آنکھیں ہیں ادھر روے سخن اور طرف......
یاروں کی نظر میں ہیں یہ ساری باتیں......

--: :--

گو میرؔ کہ احوال نہایت ہے سقیم....
کہتے ہیں اسے شافی و کافی و حکیم......
وہ غیر کرم بندے کے حق میں نہ کرے.....
یہ بابت مکرمت ہے اللہ کریم.....

--: :--

طوفان اے میرؔ شب اٹھائے تو نے....
آشوب بلا آنکھوں دکھائے تو نے.....
رونے سے ترے رو سی چلی آئی ایک.....
یہ دو دریا کہاں سے پائے تو نے.....

--: :--

رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی....
بے صرفہ کسو وقت حکایت نہ سنی.....
تھا میرؔ عجب فقیر صابر شاکر.....
ہم نے اس سے کبھو شکایت نہ سنی.....

--: :--

راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے....
مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے.....
بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ.....
سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھیے.....

--: :--

دل غم سے ہوا گداز سارا اللہ....
غیرت نے ہمیں عشق کی مارا اللہ.....
ہے نسبت خاص تجھ سے ہر اک کے تئیں....
کہتے ہیں چنانچہ سب ہمارا اللہ...

--: :--

دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا....
درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا.....
ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری.....
دیکھیں تو ہمیں عشق دکھائے کیا کیا.....

--: :--

دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے....
دل مرگ سے آشنا کیا ہے میں نے....
تھا چشمۂ آب زندگانی نزدیک...
پر خاک سے اس کو بھر دیا ہے میں نے....

--: :--

افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی.....
دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی....
جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر.....
جھل ایسی بھی عشق میں کرے ہے کوئی.....

--: :--

جب وہ ہنستا ہے تو مستانہ کنول لگتا ہے.....
میر کا شعر یا غالب کی غزل لگتا ہے.....

--: :--

تم تو اے مہربان انوٹھے نکلے....
جب آن کے پاس بیٹھے روٹھے نکلے.....
کیا کہیے وفا ایک بھی وعدہ نہ کیا.....
یہ سچ ہے کہ تم بہت جھوٹے نکلے.....

--: :--

ہیں قید قفس میں تنگ یوں تو کب کے...
رہتے تھے گلے ہزار نیچے لب کے.....
اس موسم گل میں میرؔ دیکھیں کیا ہو.....
ہے جان کو بے کلی نہایت اب کے.....

--: :--

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا....
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا....
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے....
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا....
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں.....
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا........
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں....
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا....
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل...
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا....
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف....
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا.....
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر.....
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا.....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

فقیرانہ آئے صدا کر چلے....
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چل....
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم....
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے....
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

ہستی اپنی حباب کی سی ہے...
یہ نمائش سراب کی سی ہے.....
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے.....
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے.....
چشم دل کھول اس بھی عالم پر.....
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے.....
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں.....
حالت اب اضطراب کی سی ہ
نقطۂ خال سے ترا ہے
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

عمر بھر ہم رہے شرابی سے.....
دل پر خوں کی اک گلابی سے.....
جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ.....
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا....
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا.....
اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تا گل پھر گل سے لے کے تا‌ شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

جب سے اس بے وفا نے بال رکھے....
صید بندوں نے جال ڈال رکھے.....
ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ
یوں کوئی جی میں کچھ خیال رکھے
رہرو راہ خوفناک عشق
چاہیے پاؤں کو سنبھال رکھے
پہنچے ہر اک نہ درد کو میرے
وہ ہی جانے جو ایسا حال رکھے
ایسے زر دوست ہو تو خیر ہے اب
ملیے اس سے جو کوئی مال رکھے
بحث ہے ناقصوں سے کاش فلک
مجھ کو اس زمرے سے نکال رکھے
سمجھے انداز شعر کو میرے.....
میرؔ کا سا اگر کمال رکھے....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

جس جگہ دور جام ہوتا ہے...
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے....
ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے
تیغ ناکاموں پہ نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے
پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز ان کا بھی شام ہوتا ہے
آخر آؤں گا نعش پر اب آہ
کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غم زدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی
رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے
گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہ گاروں میں تھے.....
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے.....
دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے.

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو......
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو....
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم.....
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو.......
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن......
اس قدر تو سواد ہے ہم کو.....
سادگی دیکھ عشق میں اس کے.....
خواہش جان شاد ہے ہم کو.....
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ.....
قصد شور و فساد ہے ہم کو....
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں....
اور سب سے عناد ہے ہم کو.....
نامرادانہ زیست کرتا تھا......
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو.....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

ہے غزل میر یہ شفائیؔ کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ.....
کس بھروسے پر آشنائی کی......

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے....
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا.....
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا
بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا
کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا
مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا
میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا.....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ......

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

لب ترے لعل ناب ہیں دونوں.....
پر تمامی عتاب ہیں دونوں.....
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک....
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں.....
ہے تکلف نقاب وے رخسار.....
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں.....
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے....
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں....
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ....
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں....

--: Meer Taqi Meer Ghazal :--

Page 1 of 4