Meer Taqi Meer Poetry in Urdu
Meer Taqi Meer
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا....
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا....
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے....
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا......
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو ...
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات...
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے .....
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے....
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے ...
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک می..
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن .....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت ...
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر....
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن ....
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی.....
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کےتئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا....
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب ....
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں....
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں.....
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس ....
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے....
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ ازار جائے گا
ہستی اپنے حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
شکوہ ابلہ ابھی سے میر
ہے پیارے ہنوز دلی دور
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس ارام طلب کو
بدنامی کیا عشق کی کہیے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
آگ تھے ابتدا عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے
یوں اٹھے اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
قصد کر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
عشق انکھوں میں کم نہیں اتا
لو ہو اتا ہے جب نہیں اتا
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جما تو دیوان کیا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
گل ہو مہتاب ہو ائینہ ہو خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے
دکھ تو دل کے جان سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
جبکہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
وہ شوخ دشمن جاں اے دل تو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظلم ایسی بلا کی خواہش
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا