Parveen Shakir Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/parveen-shakir.png)
Parveen Shakir
--بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
--وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
--مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے
--برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے
-کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
--چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
--محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے
--خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے
-بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
-پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے
--نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی
سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے
--قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی
پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی
--جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
--میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی
--وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں
فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی
--یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
-بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے
اس سمندر کا کنارہ اور ہے
موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے
ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
--متن میں تو جرم ثابت ہے مگر
حاشیہ سارے کا سارا اور ہے
--ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
آسماں کا ہی اشارہ اور ہے
--دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی
تیز بارش کا سہارا اور ہے
--ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
--سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے
فصل غم کا گوشوارہ اور ہے
--دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے
--اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے
--حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
,بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکست خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
,نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
,یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں
,ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سلے بھی نہیں
,خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں
--اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
--میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
--تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے
--ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے
--صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے
--اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے
---اس عمر کے بعد اس کو دیکھا
--آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
--ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
--چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
--لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
--آواز میں گونجتی جدائی
---بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
---سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
--تا دیر میں سوچتی رہی تھی
--کس ابر گریز پا کی خاطر
--میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
--کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
--میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
--وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو
--لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!
--جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
--ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
--میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں
--تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے!
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکر فصل گل نہیں آیا
مگر اک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہوگی
میں اپنے گھر میں اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں وہ منزل ہے چاہت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
===========================
--سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
--مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
--رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
--ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
---بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
--فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
--اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
--چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
--وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی
--نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
--لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
--شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
--ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
--عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
---گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے
--کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
--زخم ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
--کس شہر نا سپاس میں پیدا کیا مجھے
--جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
--کیوں ذوق شعر دے کے تماشا کیا مجھے
--خوشبو ہے چاندنی ہے لب جو ہے اور میں
--کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
--دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے
--میں یوں سنبھل گئی کہ تری بے وفائی نے
--بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
---وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
--دنیا کے ہر فریب سے ملوا دیا مجھے
--اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
--بیتے دنوں کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیا مجھے
--کچھ خبر لائی تو ہے باد بہاری اس کی
--شاید اس راہ سے گزرے گی سواری اس کی
--میرا چہرہ ہے فقط اس کی نظر سے روشن
--اور باقی جو ہے مضمون نگاری اس کی
--آنکھ اٹھا کر جو روادار نہ تھا دیکھنے کا
--وہی دل کرتا ہے اب منت و زاری اس کی
--رات کی آنکھ میں ہیں ہلکے گلابی ڈورے
--نیند سے پلکیں ہوئی جاتی ہیں بھاری اس کی
--اس کے دربار میں حاضر ہوا یہ دل اور پھر
--دیکھنے والی تھی کچھ کارگزاری اس کی
--آج تو اس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا
-اس کے جاتے ہی نظر میں نے اتاری اس کی
--عرصۂ خواب میں رہنا ہے کہ لوٹ آنا ہے
--فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اس کی
==========================
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا کیا ہے جو اب نظم چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے صیاد سے بھی
کیوں سرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرار دل آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو مرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گہ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی
رنگ خوش بو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اجالوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گھومیں
میں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عمر بھر تھامے رہے خوش بو کو
پھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتوں میں سمٹ کر سوئے
پیڑ یوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے
---رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں
---شب وصال کا جیسے خمار آنکھوں میں
---مٹا سکے گی اسے گرد ماہ و سال کہاں
---کھنچی ہوئی ہے جو تصویر یار آنکھوں میں
---بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے
--مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں
--ہزار صاحب رخش صبا مزاج آئے
--بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں
--وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہہ تلوار
--تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں
===========================
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اُڑان سے پہلے
یہ خوف ہجر ہے، شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزا تو جب ہے کہ تم جان بوجھ کر ہارو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی اُبھار سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
=≠==============≠==========
--وہ جس کی ایک پل کی بے رُخی بھی دل کو بار تھی
--- اُسے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔مجھ کو بھُول جا
--
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
--
ہماری زندگی برباد کر کے
---
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
---
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
--
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
--
مگر ہاں منت صیاد کر کے
--
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
--
گیا ہے روح کو آباد کر کے
--
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
---
مقرر ظلم کی میعاد کر کے
===========================
---بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
---موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
---بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
---کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
--جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
---بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
__لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
__سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
--بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
---دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
---سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں
---زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے
----جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
---لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
===========================
یہ کب کہتی ہوں تم میرے گلے کا ہار ہوجاؤ۔۔
وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بےزار ہوجاؤ۔۔
ملاقاتوں میں وقفہ اس لئے ہونا ضروری ہے،
کہ تم اک دن جدائی کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔
بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو،
بہت آسان ہو تھوڑے بہت دشوار ہوجاؤ۔۔
بلا کی دھوپ سے آئی ہوں میرا حال تو دیکھو،
بس اب ایسا کرو تم سایۂ دیوار ہوجاؤ۔۔
ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھ بھی لینا حالِ دل اپنا
مگر لکھنا تبھی جب لائقِ اظہار ہوجاؤ
===========================
اجنبی! یہ تو بتا کہ تِری باتوں میں
اِتنی صدیوں کی شناسائی کہاں سے آئی
میرے زخموں کو تو ناسُور بتاتے تھے سبھی
تیرے ہاتھوں میں مسیحائی کہاں سے آئی
===========================
--وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
--عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
--برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
--پھر کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
---وہ رُوح میں خُوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل
---جو دُور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
--ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
--آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
---کون جانے نئے سال میں تو کس کو پڑھے
--تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
---ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
--کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
-ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا۔
---کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا۔
--اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
--اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
وقت رخصت آ گیا___ دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
زندگی جتنی بھی ہے اب مستقل صحرا میں ہے
اور اس صحرا میں___ تیرا دور تک سایہ نہیں
میری قسمت میں فقط درد تہہ ساغر ہی ہے
اول شب جام____میری سمت وہ لایا نہیں
تیری آنکھوں کا بھی کچھ ہلکا گلابی رنگ تھا
ذہن نے میرے بھی اب کے دل کو سمجھایا نہیں
کان بھی خالی ہیں میرے اور دونوں ہاتھ بھی
اب کے فصل گل نے مجھ کو پھول پہنایا نہیں
===========================
دَروازہ جو کھولا تَو نَظَر آئے کَھڑے وہ
حَیرَت ہے مُجھے آج کِدھر بُھول پَڑے وہ
بُھولا نہیں دِل ہِجر کے لَمحات کَڑے وہ
راتیں تو بَڑی تھِیں ہی مَگر دِن بھی بَڑے وہ
کیوں جان پہ بَن آئی ہے بِگڑا ہے اَگر وہ
اُس کی تَو یہ عادَت کہ ہَواؤں سے لَڑے وہ
اَلفاظ تھے اُس کے کہ بہاروں کے پَیامات
خوشبُو سی بَرسنے لَگی یُوں پُھول جَھڑے وہ
ہر شخص مُجھے تُجھ سے جُدا کَرنے کا خواہاں
سُن پائے اَگر ایک تَو دَس جا کے جَڑے وہ
بَچّے کی طَرَح چاند کو چُھونے کی تَمَنّا
دِل تَو کوئی شَہ دے دے تَو کَیا کَیا نہ اُڑے وہ
طُوفاں ہے تو کَیا غَم مُجھے آواز تَو دِیجے
کیا بُھول گئے آپ مِرے کَچَّے گَھڑے وہ
===≠=====≠=======≠======≠==
کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی
ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر
کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی
زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر
تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم بھی
ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دُھن میں
کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی
===========================
--کاسۂ دِید میں ، بس ایک جَھلک کا سِکّہ
---
ھم فقیروں کی قناعت سے , تُجھے دیکھتے ھیں
---میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
---مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے
---یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
---شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
شرم آئے گی تمھیں ورنہ تمہارے وعدے
--میں یاد دلا سکتی ہوں ، مگر رہنے دو
--عکسِ شکستِ خواب __ بہر سُو بکھیریے
--چہرے پہ خاک، زخم پہ خوشبو بکھیریے
--دامانِ شب کے نام کوئی روشنی تو ہو
--تارے نہیں نصیب تو آنسو بکھیریے
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے......
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خاک سے ہے ...
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
---وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
--وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں
-اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں