Parveen Shakir Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/parveen-shakir.png)
Parveen Shakir
--میرے لفظوں سے نکل جائے اثر
-- کوئی خواہش جو تیرے بعد کروں
---اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
---کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
--وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
--مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
--ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
--کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
--وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
--ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
-وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
--موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
--آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
--تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
--مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
--جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
--وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
--بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
--اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
--کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
---اُس کے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا
--کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہونا
---بہار نے مِری آنکھوں پہ پھُول باندھ دیئے!
---رہائی پاؤں تو کیسے ، حصارِ رنگ میں ہوں
--تجھ سے لازم تھی محبت نادانی کب تھی
---ہم کو معلوم تھا تم نے نبھانی کب تھی
---اب جو اداس طبعیت ہے رونا کیسا
--پہلے بھی میری کوئی شام سہانی کب تھی
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوف ہجر ہے شوقِ وصال تھوڑی ہے
مزا تو تب ہے کہ ہار کے بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
---ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
---اور یہ دل ھے کے اسے حد سے سوا چاہتا ھے
... اب کیا ڈھونڈ تے ہو جلے کاغذ کی راکھ میں
...وہ افسانہ ھی جل گیا جسکا عنوان تم تھے
==کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
==میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
--قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
--دستار کے ہوتے ہوۓ سر کاٹ رہا ہے
--میں لاکھ مُحترم ہوئی، مگر ڈھونڈتی رہی
--لذت، جو تیرے شہر کی رسوائیوں میں تھی
--حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
--بات سے پہلے جہاں بات کٹے
--پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
--ایسے میں آنکھ دھُوپ کے رُخ کیسے کھولیے
--ہنسی کو اپنی سُن کے ایک بار میں چونک اُٹھی
---یہ مجھ میں دُکھ چھپانے کا کمال کیسے آگیا
----وفا میں دھُوپ کا ساتھی کوئی نہیں
---سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
----بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا
----اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں
---اب تو ٹوٹی کشتی بھی آگ سے بچاتے ہیں
----ہاں کبھی تھا نام اپنا بخت آزماؤں میں
---شاخوں نے پھُول پہنے تھے کچھ دیر قبل ہی
----کیا ہو گیا ، قبائے شجر کیوں اُتر گئی
---کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں
---وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
---وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
---انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
---تم نے پوچھا ہے چلو تم کو بتا دیتے ہیں
---جو ہم پہ گزری ہے تم کو بھی سنا دیتے ہیں
---
تیرے بعد ہمیں خود پہ بھی اعتبار نہیں
---لفظ لکھتے ہیں لکھ کر مٹا دیتے ہیں
-
نمی آ نکھوں میں لئے لوگوں سے کبھی ہنس لیں
---تو ایسا لگتا ہے کہ خود کو سزا دیتے ہیں
---
تیری یاد سے اک پل بھی غافل نہ رہے
---یوں ہی دل کے بہل جانے کو بھلا دیتے ہیں
ہم نے ہنس کے تیرے ساتھ گزارے تھےکبھی
یاد آ تے ہیں جو پل تو رلا دیتے ہیں
---بدنام کر گیا ہمـــــــــیں تیرا جھوٹا عشق ساقی
---پانی بھی پیــــتے ہیں تو لوگ شرابی کہتے ہیں
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر کےلیکن
----وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے