Ghalib Poetry in Urdu
Ghalib Poetry
.....نگہہ معمارِ حسرت ہا‘ چہ آبادی‘ چہ ویرانی
کہ مژگاں جس طرف وا ہو‘ بہ کف دامانِ صحرا ہے..
....ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
....میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں..
...شوخیِ اظہار غیر از وحشتِ مجنوں نہیں
....لیلیِ معنی اسد! محمل نشینِ راز ہے..
....تا چند پست فطرتیِ طبعِ آرزو!
....یارب! ملے بلندیِ دستِ دعا مجھے..
....میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب!
...جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں..
....بے چشمِ دل نہ کر ہوسِ سیرِ لالہ زار
.....یعنی یہ ہر ورق ورقِ انتخاب ہے..
مشق از خود رفتگی سے‘ ہیں بہ گلزارِ خیال
....آشنا تعبیرِ خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم..
....اے آرزو شہیدِ وفا! خوں بہا نہ مانگ
....جز بہرِ دست و بازوئے قاتل دعا‘ نہ مانگ..
....کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہائے عزیزاں
....خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے..
خواہشِ دل ہے زباں کو سببِ گفت و بیاں
...ہے سخن گرد ز دَامانِ ضمیر افشاندہ..
کون آیا‘ جو چمن بے تابِ استقبال ہے!
.....جنبشِ موجِ صبا‘ ہے شوخیِ رفتارِ باغ..
ہم زانوئے تامل و ہم جلو گاہِ گل
...آئینہ بندِ خلوت و محفل ہے آئینہ..
...کفر ہے‘ غیر از وفورِ شوق‘ رہبر ڈھونڈھنا
راہِ صحرائے حرم میں ہے جرس‘ ناقوس و بس..
....فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ
....نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز..
رنجش دل‘ یک جہاں ویراں کرے گی اے فلک
....دشت ساماں ہے غبارِ خاطرِ آزردگاں..
کس کو دوں یا رب! حسابِ سوز ناکیہائے دل
....آمدورفتِ نفس‘ جز شعلہ پیمائی نہیں
...مدعی میری صفائے دل سے ہوتا ہے خجل
....ہے تماشا‘ زشت رویوں کا عتاب آئینے پر..
....تو پست فطرت اور خیالِ بسا بلند
....اے طفلِ خود معاملہ! قد سے عصا بلند!..
....ہمیں‘ خریرِ شرر بافِ سنگ‘ خلعت ہے
....یہ ایک پیر ہنِ زر نگار رکھتے ہیں..
....بڑی عجیب ھے نادان دل کی خواھش یا رب
..عمل کچھ نھیں اور دل طلب گار ھے جنت کا..
....بلبل کے کاروبار پھ ھیں خندہ ھائے گل
....کھتے ھیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا..
...قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں..
....گرمی سہی کلام میں مگر نا اتنی سہی
....کی جس سے بات اسنے شکایت ضرور کی..
....عشق نے نکما بنا دیا غالب ورنہ
....ہم بھی بھڑے کام کے آدمی تھے..
....دیکھتا ہوں اُسے تھی جس کی تمنا مجھ کو
....آج بیداری میں ہے خواب ذلیخا کامجھے پھر..
....صحرا کو بڑا عالم ھے اپنی تنہائی پر غالب
.....اس نے دیکھا نہں عالم میری تنہائی کا..
....یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
.....کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں..
....شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرہٴ ابر آب تھا
....شعلہٴ جوّالہ ہر اک حلقہٴ گرداب تھا ..
...زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
.....ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے..
...اگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب
....ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے..
انکار میں وہ لذت، اقرار میں کہاں ہے؟
بڑھتا ہے شوق "غالب" تیرے نہیں نہیں میں...
....مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
....تو نے وہ گنجہاۓ گراں مایہ کیا کیے..
مزہ ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا ؟
......رکھے جو بیچ میں وہ شوخ سیم تن تکیہ ..
....مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے
....جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئ
...سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
....تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو..
....ذلیل ہے ہٹ کر
.....کھڑا ہو سب کے سامنے..
غالب کی زمین میں چند اشعار کہنے کی جسارت
.....' درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا .....
...نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
....کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا..
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
....دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
....دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
.....آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا..