Ghalib Poetry in Urdu
![Poet](https://attitudepoetry.com/images/categories/mirza-ghalib.png)
Ghalib Poetry
....دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نبرد تھا
....عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا..
....دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
....ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا..
....کتنی عجیب ہے نیکیوں کی جستجو غالب
نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں پھر سے گناہ کرنے کیلئے..
....مُدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
...جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے..
دیدار کی طلب ہو تو نظریں جمائے رکھ غالب
....پردہ ہو یا نقاب سرکتا ضرور ہے..
....وہ مل جائے مجھے تو یوں سمجھوں گا غالب
....جنت کا اعلان ہو جیسے کسی گناہ گار کیلئے..
....موت کا ایک وقت مقرر ہے
...پھر نیند کیوں رات بھر نہیں آتی..
محبت کو ہمیشہ مجبوریاں ہی لے ڈوبتی ہیں غالب
....ورنہ کوئی خوشی سے بے وفا نہیں ہوتا..
....محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
....یاں ورنہ جو حجاب ہے‘ پردہ ہے ساز کا..
وہ شخص اب بھی رچا بسا ہے میری سانسوں میں غالب
.ہاں یہ اور بات ہے میرے نصیب میں نہیں..
نہیں سجدے کئے ہم نے کبھی شاہوں کی چوکھٹ پر غالب
..ہمیں جتنی ضرورت ہو خدا سے مانگ لیتے ہیں..
....بس ختم کرو یہ بازیِ عشق غالب
...مقدر کے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے..
....بس ختم کرو یہ بازیِ عشق غالب
....مقدر کے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے..
میرا قلم میرے جذبات سے واقف ہے اتنا غالب
کہ میں لفظ محبت لکھوں تو تیرا نام لکھا جاتا ہے..
....مجھے اپنے کردار پر اتنا تو یقین ہے غالب
...کوئی مجھے چھوڑ تو سکتا ہے مگر بھلا نہیں سکتا..
وقت نِدا ہے اضطراب میں ہوں کہ جان کس کو دوں غالب
...وہ بھی آبیٹھے ہیں اور موت بھی آبیٹھی ہے..
....مجھے اپنے کردار پر اتنا تو یقین ھے غالب
...کوئی مجھے چھوڑ تو سکتا ہے مگر بھلا نہیں سکتا..
..قید حیات و بند غم ، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟..
....دھمکی میں مرگیا جو، نہ بابِ نبرد تھا
....عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا..
....عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
....جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا..
...کوئی امّید بر نہیں آتی
....کوئی صورت نظر نہیں آتی..
دل ہی تو ہے‘ نہ سنگ و خشت‘ درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار‘ کوئی ہمیں ستائے کیوں؟..
....یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
....اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا..
....ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے
....مردمک ہے طوطئِ آئینۂ زانو مجھے..
...
نکتہ چيں ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے
....کيا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے..
...آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
....دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست..
....مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
...دامِ خالی ، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس..
....رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
...ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع..
....مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
...ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں..
...دل نازک پہ اس کے رحم آتا ھے مجھے غالب
....نہ کر سرگرم اس کافر کو الفت آزمانے میں..
...ہم رشک کو اپنے بھی گوارہ نہیں کرتے
....مرتے ھیں ولے ان کی تمنا نہیں کرتے..
....آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
...ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیںجسے..
....گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ھے
...خوش ھوں کہ میری بات سمجھنی محال ھے..
...مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
...بھَوں پاس آنکھ قبلۂِ حاجات چاہیے ..
.دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا..
..نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
.لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ ..
...وہ آ کے خواب میں تسکینِ اضطراب تو دے
....ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے..
....کہتے ہو نہ دینگے ہم دل اگر پڑا پایا
....دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدّعا پایا..
...جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
....خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں..
....دل لگا کر‘ لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
....بارے‘ اپنی بیکسی کی ہم نے پائی داد‘ یاں..